رسائی کے لنکس

متمول ممالک پلاسٹک کا گند غریب ممالک کو بھیج رہے ہیں


امیر ممالک لاکھوں ٹن پلاسٹک کا گند جنوب مغربی ایشیا کے ممالک کو برآمد کر رہے ہیں جہاں اتنی تعداد میں پلاسٹک کو ری سائکل کرنا ناممکن ہے۔ ’گرین ہاؤس پیس‘ نامی ادارے کے مطابق، اس وجہ سے ان ممالک میں آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔

ماحول پر نگاہ رکھنے والے اس ادارے کا کہنا ہے کہ امیر ممالک اپنے ہاں ری سائکلنگ کے پراسیس کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ مگر اکثر اوقات یہ پلاسٹک درآمد کر دیا جاتا ہے اور اسے یا تو زمین میں دبا دیا جاتا ہے یا یہ ایسے ہی زمین یا سمندر میں کھلا پھینک دیا جاتا ہے جہاں یہ آلودگی مچاتا ہے۔

کوالالمپور سے محض 50 کلومیٹر دور پالم کے باغات کے علاقے میں استعمال شدہ پلاسٹک کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں۔ اس میں سے زیادہ تر گند کے ڈھیر اکثر امیر ممالک سے یہاں پہنچتے ہیں مگر اس کے نقصانات مقامی افراد کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔

ماحولیات کے ماہر اور اس علاقے میں رہنے والے پیا لے پینگ نے کہا ہےکہ ‘‘وہ ری سائکل نہ ہو سکنے والا پلاسٹک یا ’ریجیکٹ‘ ہونے والی مصنوعات یہاں پھینک دیتے ہیں اور پھر اسے آگ لگا دیتے ہیں۔ اس دھوئیں سے مقامی لوگوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’’

’گرین ہاؤس پیس‘ ادارے سے تعلق رکھنے والی کیٹلین کا کہنا ہے کہ ‘‘ان امیر ممالک کے پاس کلیکشن کی اچھی جگہیں موجود ہیں۔ مگر وہ آدھا استعمال شدہ پلاسٹک دوسرے ممالک کو بیچ دیتے ہیں۔ چین میں پابندی لگنے سے پہلے یہ چین بھیج دیا جاتا تھا۔ اب یہ دوسرے ممالک کو بھیج دیتے ہیں۔’’

انھوں نے کہا کہ ‘‘ان غریب ممالک کے پاس ایسے وسائل اور سہولیات دستیاب نہیں ہیں کہ وہ اتنی بڑی مقدار میں پلاسٹک ویسٹ کو سنبھال سکیں۔ اس وجہ سے مقامی لوگوں کو آلودگی برداشت کرنی پڑتی ہے۔’’

اس وجہ سے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک اب ایسے پلاسٹک کے ویسٹ پر چند پابندیاں لگا رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ ان ممالک کو بھیجا جا رہا ہے، جہاں اس ضمن میں کوئی ضابطے موجود نہیں ہیں، جیسا کہ ہندوستان اور انڈونیشیا۔

پیا لے پیانگ کا کہنا ہے کہ ‘‘ہم اس استعمال شدہ پلاسٹک کی وجہ سے اپنے آپ کو مار رہے ہیں۔ ہم پلاسٹک پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔ خدارا اپنا گند خود سنبھالیں اور ہمارے ممالک میں نہ پھینکیں۔’’

’گرین ہاؤس پیس‘ کا کہنا ہے کہ آخری حل یہ نہیں ہے کہ پلاسٹک کو زیادہ ری سائکل کیا جائے، بلکہ اس کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے۔

XS
SM
MD
LG