رسائی کے لنکس

وزیر اعظم گورڈن براؤن کو اپنے دور اقتدار میں مسائل کاسامنا رہا


ملکہ برطانیہ نے کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ ڈیوڈ کیمرون کو ملک کا وزیرِ اعظم نامزد کر دیا ہے۔ اس سے پہلے لیبر پارٹی کے سربراہ گورڈن براؤن نے وزارتِ عظمی اور پارٹی کی سربراہی سے استعفٰے دے دیا۔ ان کے اس اعلان سے لیبر پارٹی کا 13 سالہ دورِ حکومت ختم ہو گیا۔ گورڈن براون کی طویل سیاسی زندگی پر ایک نظر۔

گورڈن براؤن استعفے کا اعلان کرتے ہوئے کچھ غمگین نظر آئے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میں نے ملکہ کے سیکرٹری کو مطلع کیا ہے کہ میں اپنا استعفےٰ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اگر ملکہ میرا استعفی قبول کر لیتی ہیں تو میں انہیں مشورہ دوں گا کہ وہ اپوزیشن راہنما کو نئی حکومت بنانے کی دعوت دیں۔

گورڈن براؤن نے یہ فیصلہ اس وقت کیا ہے جب لیبر پارٹی عام انتخابات میں اپنی حریف جماعت کنزرویٹو پارٹی کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہی۔ اور اس طرح برطانیہ کی تاریخ کا ایک اہم باب ختم ہوا۔

گورڈن براؤن برطانیہ کی سیاست میں دو دہائیوں سے زیادہ متحرک رہے۔ اور 1997 ءمیں واضح برتری حاصل کر کے اقتدار میں آنے والی لیبر پارٹی کے مرکزی راہنماؤں میں شامل تھے۔

ٹونی بلیئربرطانیہ کے وزیرِ اعظم بنے اور گورڈن براؤن برطانوی نو آبادیوں کے چانسلر ۔ اور 2007 ءمیں طویل انتظار کے بعد مسٹربراؤن پارٹی کے سربراہ بنے۔

شروع میں مسٹر براؤن ایک مشہور لیڈر تھے۔ مگر اقتدار کے ذرا لمبے ہنی مون کے بعد عوام کی اکثریت کی رائے ان کے خلاف ہو گئی۔

رچرڈ وینن لندن کے کنگز کالج کے پروفیسر ہیں وہ کہتے ہیں گورڈن براؤن کبھی بھی ٹونی بلیئر کی شخصیت کے گہرے سائے سے ابھرنے کے قابل نہ تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹونی بلیئر بہت پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک عالمی شخصیت تھے۔ یہ یقیناً مسٹر براؤن کا قصور نہیں کہ وہ ٹونی بلیئر کی شخصیت کے سائے میں چھپے رہے۔ مگر یہ واضح تھا کہ وہ انتخابات میں ایک مسئلہ بنیں گے کیونکہ ان کے مزاج میں ملنسار ی نہیں تھی ۔ کیونکہ وہ ٹی وی پر ان کی موجودگی متاثر نہیں کرتی ہے۔ کیونکہ اپنی کابینہ کے افراد کے ساتھ ان کے اختلافات بہت نمایاں تھے۔

گورڈن براؤن میں اکثریت کی رائے سے متفق نہ ہونے کا پہلو اس وقت سامنے آیا جب انتخابی مہم زوروں پر تھی۔ پارٹی کی ایک حامی نے امیگریشن مسائل پر ان کی رائے سے اختلاف کیا۔ مسٹر براؤن کا مائیکروفون جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بھی آن تھا ۔ انہوں خاتون کو متعصب کہا اور بعد میں معافی مانگی۔

مسٹر براؤن کی شخصیت ہی صرف مسئلہ نہیں تھی۔ لیبر پارٹی کی وراثت میں عراق اور افغانستان کی جنگیں اور معاشی سست روی اضافی مسائل تھے۔

مگر گورڈن براؤن نے برطانیہ کی معیشت کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پروفیسر وینن کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ان کے جانے کے بعد جو کچھ کہا جائے گا وہ یہ ہوگا کہ انہوں نے بینکوں کے بحران کا مقابلہ بہت سمجھداری سے کیا اور جن لوگوں نے بینکوں کے امدادی پروگراموں کی بات کی ،ان میں براؤن کی آواز نمایاں طورپر بلند تھی۔

مگر گورڈن براون کی معاشی پالیسیاں انہیں اقتدار میں رکھنے کے لیے کافی نہ تھیں۔ اب لیبر پارٹی کے حمائتیوں کے لیے اگلا سوال یہ ہے کہ ان کا اگلا رہنما کون ہو گا۔ وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ پسندیدہ ترین امیدوار ہیں۔ اسی طرح کابینہ میں ان کے ساتھ ایڈ بالز بھی۔ دونوں اپنی عمر کی پانچویں دہائی میں ہیں اور گورڈن براون کے جانے کے بعد شائد لیبر پارٹی کی لیڈرشپ میں نئی نسل کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG