رسائی کے لنکس

’بیرون ملک تعینات سفارت کاروں کے بھیجے گئے مراسلے معمول کی بات ہے‘


پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے جب سے اپنے خلاف اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کا اصل محرک بیرونی سیاسی مداخلت کو قرار دیا ہے، وہ اپنے اس دعوے کے ثبوت کے طور پر ایک مبینہ دھمکی آمیز خط کا تذکرہ کررہے ہیں، اس کے بعد سے پاکستان میں سفارتی مراسلت یا کیبلز کی حساسیت اوراہمیت زیرِ بحث ہیں۔

وزیرِ اعظم نے جمعرات کی شب قوم سے اپنے خطاب میں مبینہ دھمکی آمیز خط کے معاملے پر امریکہ کا نام لیا تھا، تاہم بعدازاں اُنہوں نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ کسی ملک کی جانب سے اُنہیں دھمکی آمیز پیغام موصول ہوا کہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو پاکستان کو معاف کر دیں گے ورنہ پاکستان کے لیے مشکلات ہوں گی۔

جمعرات کو امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے میڈیا بریفنگ میں وزیرِ اعظم عمران خان کے اس بیان کی تردید کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے، تاہم دھمکی آمیز خط کے حوالے سے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

پاکستان میں سابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ سفارتی کیبل ایک معمول ہے۔ جس انداز میں حکومت کی طرف سے اس کیبل پر بات کی گئی، اس سے مستقبل میں سفارت کاروں کے لیے مشکلات ہوسکتی ہیں۔

’سفارتی کیبل خفیہ ہوتی ہے‘

مبصرین کے مطابق عام طور پر کسی ملک کا سفیر جب میزبان ملک میں وہاں کے حکومتی حکام سے ملتا ہے تو اس میں ملنے والے اہم پیغامات یا معلومات سے اپنی حکومت کو آگاہ کرتا ہے اور یہ بات سفارتی معمول کا حصہ ہے۔

سابق سفار ت کار عاقل ندیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر سفارتی کیبلز کوڈ کرکے بھجوائی جاتی ہیں۔ یہ ایک معمول کی بات ہوتی ہے اور اس کا مقصد بھجوائی جانے والی معلومات کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔

سابق سفارت کار عاقل ندیم کا کہنا تھا کہ ایسی معلومات خفیہ ہوتی ہیں لیکن یہ ایک معمول کا عمل ہے۔ اس میں بھجوائی جانے والی معلومات عام طور پر مخصوص شخصیات کے لیے ہوتی ہیں، جن میں وزیرِ خارجہ، سیکریٹری خارجہ، وزیرِاعظم ہاؤس، صدارتی آفس شامل ہوسکتے ہیں۔ اسے عام طور پر خفیہ رکھا جاتا ہے اور اگر کسی ایک وزارت سے متعلق معلومات ہوں تو دوسری وزارت کو بالکل معلومات نہیں دی جاتی۔
ان کا کہنا تھا کہ سفارت کار میزبان ملکوں میں ہونے والی ملاقاتوں کی تفصیلات یا دیگر معلومات کے حوالے سے جب اپنے ملک کو آگاہ کرتے ہیں تو اس کی نوعیت کےا عتبار سے اسے صیغۂ راز میں رکھنے یا انتہائی اہم ہونے کی نشاندہی بھی کردیتے ہیں۔

سفارتی معاملے پر سیاسی ردّعمل

مراسلے کا حوالہ دینے کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم عمران خان پاکستان میں درپیش سیاسی حالات کو اپنی خارجہ پالیسی سے جوڑ رہے ہیں۔

جمعے کو اسلام آباد میں سیکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکہ کہتا ہے کہ بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی ہے، اسے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ برطانوی وزیرِ خارجہ نے بھی کہا کہ بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی ہے، اس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت امریکہ کا اتحادی ہے مگر روس سے تعلقات قائم کر رہا ہے۔ بقول امریکہ کے بھارت آزاد ہے تو ہم کیا ہیں؟ جو ملک آزاد پالیسی کا نہ ہو وہ کبھی عوامی مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتا۔

دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں احتجاجی مراسلہ دے دیا گیا ہے، تاہم دفتر ِخارجہ کی پریس ریلیز میں کسی ملک کا نام نہیں لکھا گیا۔ یہ اقدامات وزیر اعظم کی جانب سے ایک سفارتی مراسلے سے متعلق کیے گئے دعوے کے بعد سامنے آئے ہیں۔

پاکستان میں سفارتی مراسلے اور اس سے اخذ کیے جانےو الے پیغام کے بارے میں سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سفیر کی طرف سے آنے والا مراسلہ یا انہیں بلا کر پاکستان سے متعلق کچھ کہنا ایک معمول کی بات ہے، ماضی میں امریکہ کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے وقت یا دیگر ادوار میں براہ راست دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں۔


انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات پر سفارتی انداز میں ڈیل کیا جائے تو سفارت کاروں کا ردِعمل مختلف ہوتا ہے لیکن وزیرِاعظم عمران خان نے اپنے سیاسی انداز میں اس کا جواب دیا ہے۔

شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ سفیر کو بلا کر عمران خان کی پالیسیوں پر اظہارِ ناپسندیدگی کیا گیا ہو یا تحریکِ عدم اعتماد پر بھی کوئی بات ہوئی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ لہذٰا سفیر نے وہ معلومات حکومت کو ارسال کر دی ہوں۔

عاقل ندیم کا کہنا تھا کہ سفارت کاروں کو عام طور پر پتا ہوتا ہے کہ ان کو کسی دوسرے ملک کے سفارت کار کے بارے میں کیا بات کرنی ہے، لیکن وزیرِاعظم کی طرف سے ایسی معلومات کا لیک ہونا بہت عجیب سی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد پاکستانی سفارت کاروں کے لیے مشکل ہے کہ وہ آئندہ کسی ملک سے کوئی معلومات بھیجیں تو یہاں کی حکومت انہیں کیسے ہینڈلنگ کرے گی اور انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔

XS
SM
MD
LG