رسائی کے لنکس

کیا پاکستان میڈیکل کمیشن 2024 تک بین الاقوامی معیار کے اقدامات ممکن بنا سکتا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں طب کی تعلیم کو ریگولیٹ کرنے والے قومی ادارے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) نے کہا ہے کہ پاکستان جنوری 2024 کی ڈیڈلائن سے پہلے تک ورلڈ فیڈریشن فار میڈیکل ایجوکیشن (ڈبلیو ایف ایم ای) کے طے شدہ معیار پر پورا اترنے کے لیے درکار ضروری اقدامات مکمل کر لے گا ۔ بصورت دیگر پاکستانی میڈیکل گریجوایٹس کے لیے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کا حصول اور کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔

پاکستان میڈیکل کمیشن کے اس بیان کو میڈیکل یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں زیرِ تعلیم طلبہ کی تشویش کم کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبر یں شائع ہوئی تھیں کہ اگر طب کی تعلیم کے نگران عالمی ادارے ڈبلیو ایف ایم ای نے جنوری 2024 تک پاکستان میڈیکل کمیشن کو تسلیم نہ کیا تو پاکستانی ڈاکٹرز امریکہ میں نہ تو اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گے اور نہ ہی امریکہ میں کام کے لیے وہاں کے نگران اداروں سے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کر سکیں گے۔

یو ایس ایجوکیشنل کمیشن فار فارن میڈیکل گریجویٹس (ای سی ایف ایم جی) نے 2010 میں ایک بیان میں کہا تھا کہ دیگر ملکوں سے فارغ التحصیل ان میڈیکل گریجوایٹس کو ہی امریکہ میں طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ای سی ایف ایم جی کا اجازت نامہ جاری کیا جائے گا، جنہوں نے ان ممالک سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی ہو گی، جن کے معیار کو ورلڈ فیڈریشن فار میڈیکل ایجوکیشن جیسے اداروں نے تسلیم کیا ہوگا۔

یو ایس ایجوکیشنل کمیشن فار فارن میڈیکل گریجویٹس کے اعلان کے مطابق جنوری 2023 کے بعد صرف ڈبلیو ایف ایم ای سے تسلیم شدہ ممالک کے ڈاکٹروں کو ہی امریکہ میں میڈیکل کی تعلیم کے نگران اداروں سے اعلیٰ تعلیم کے لیے اجازت نامہ مل سکے گا۔ کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے اس مدت میں جنوری 2024 تک توسیع کر دی گئی ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق پاکستان میں طب کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے والے سابق نگران ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) نے 2017 میں ڈبلیو ایف ایم ای سے اپنے معیار کو تسلیم کرانے کے لیے درخواست دی تھی البتہ 2018 میں نئی حکومت کے قیام کے بعد پی ایم ڈی سی کو تحلیل کر کے نیا ادارہ پاکستان میڈیکل کمیشن قائم کیا گیا تھا، جس کے بعد نئے ادارے کے قیام کو عدالت میں چیلنج کیا گیا اور عدالت نے دوبارہ پی ایم ڈی سی کو بحال کر دیا تھا-

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے 2020 میں ایک قانون کے ذریعے دوبارہ پاکستان میڈیکل کمیشن کو بحال کیا تھا۔قیصر سجاد کے خیال میں اسی وجہ سے پاکستان میڈیکل کمیشن کو عالمی ادارے ورلڈ فیڈریشن فار میڈیکل ایجوکیشن میں تسلیم کرنے کا عمل تاخیر کا شکار ہوا ہے۔

دوسری جانب پی ایم سی نے ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ ادارے نے ورلڈ فیڈریشن فار میڈیکل ایجوکیشن سے منظوری کے لیے درخواست کا عمل باضابطہ طور پر شروع کر دیا ہے۔ ڈبلیو ایف ایم ای کے ماہرین کے پاکستان کے دورے سمیت ضابطے کی پوری کارروائی اور عمل میں چھ ماہ سے 12 ماہ ک کا عرصہ درکار ہو گا۔ یہ تمام عمل جنوری 2024 کی ڈیڈ لائن کے اندر اندر مکمل ہو جائے گا۔

پی ایم سی کے بیان میں یہ بھی وضاحت ہے کہ پاکستانی ڈاکٹروں پر امریکہ میں کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حوالےسے فی الحال کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔

ڈاکٹر قیصر سجاد کہتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیکل کالجوں کی نگرانی کے ادارےکے قائم کی وجہ سے تنازع ہوا اور عالمی ادارے نے پاکستان کو تسلیم کرنے کے عمل کو مؤخر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیکل گریجوایٹس میں بے چینی بڑھی جب کہ وہ ڈاکٹر ، جو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جانے کے خواہش مند ہیں، میں اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی پیدا ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ پاکستان کے متعلقہ ادارے اور پاکستان میڈیکل کمیشن اس معاملے کو حل کر لے گا۔

امریکہ میں میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند پاکستانی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کو ورلڈ فیڈریشن فار میڈیکل ایجوکیشن کے معیار پر اترنا ضروری ہے بصورت دیگر پاکستانی ڈاکٹروں کے لیے امریکہ میں میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کےمواقع محدود ہو جائیں گے۔

راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹر شہروز سلطا ن کہتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس عمل کو جلد از جلد مکمل کیا جائے تاکہ جنوری 2024 کے بعد بیرونِ ملک جانے کے خواہش مند ڈاکٹروں کے لیے کوئی مشکل صورتِ حال پیدا نہ ہو۔

XS
SM
MD
LG