رسائی کے لنکس

لاہور کے حلقہ این اے 133 میں ضمنی الیکشن، 'یہ عام انتخابات کی ریہرسل ہے'


پاکستان کے شہر لاہور کے حلقہ این اے 133 میں پانچ دسمبر کو ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے علاوہ 13 اُمیدوار میدان میں ہیں۔

حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے اُمیدوار جمشید اقبال چیمہ کے کاغذات نامزدگی تیکنیکی وجوہات کی بنا پر مسترد ہونے سے یہاں حکمران جماعت کا کوئی اُمیدوار میدان میں نہیں ہے۔

حلقہ این اے 133 کی نشست 2018 کے عام انتخابات میں یہاں سے کامیاب ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے رُکن قومی اسمبلی ملک پرویز کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔

مسلم لیگ (ن) نے ملک پرویز کی اہلیہ شائشتہ پرویز ملک جب کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے مقامی رہنما اسلم گل کو ٹکٹ دیا ہے۔

حال ہی میں حلقے میں ووٹرز کو خریدنے کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد یہاں سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے۔

حلقے میں کون کون سے علاقے شامل ہیں؟

الیکشن کمیشن کے مطابق حلقہ میں مجموعی طور پر 13 اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا جس میں آزاد اُمیدواروں کی تعداد زیادہ ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد چار لاکھ 40 ہزار 85 ہے۔ حلقہ میں مجموعی طور پر 254 پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں جن میں سے 21 انتہائی حساس اور 199 حساس قرار دیے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی حلقہ بندیوں کے مطابق حلقہ این اے 133 وفاقی کالونی، گرین ٹاؤن، کوٹ لکھپت، ٹاؤن شپ، جوہر ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن لنک روڈ، فیصل ٹاؤن اور دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔

سیکیورٹی صورتِ حال

ترجمان صوبائی الیکشن کمیشن پنجاب ہدیٰ علی گوہر کے مطابق الیکشن والے دِن حلقہ این اے 133 میں سیکیورٹی کے لیے پولیس اور رینجرز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

کوئیک رسپانس فورس کے دو ہزار جوان ڈیوٹی پر تعینات ہوں گے۔ اِسی طرح رینجرز کے 730 اہل کار ضمنی انتخاب میں ڈیوٹی پر مامور ہوں گے۔

ہدٰی گوہر کے مطابق انتخابی نتائج رینجرز کی نگرانی میں ریٹرننگ افسر تک پہنچائے جائیں گئے جب کہ انتخابی نتائج کی وصولی کے لیے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم استعمال کیا جائے گا۔

منتخب نمائندوں کی حلقے میں انٹری بند

ترجمان الیکش کمیشن پنجاب کے مطابق انتخابی حلقے میں منتخب نمائندگان پر دورہ کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کیونکہ منتخب نمائندگان کا انتخابی حلقے کا دورہ کرنا ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔

اِس سلسلے میں سی سی پی او لاہور اور ڈپٹی کمشنر لاہور کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ ہدٰی گوہر کے مطابق پابندی کا مراسلہ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر نے جاری کیا ہے جس کے تحت صدر، وزیرِ اعظم، اراکینِ سینیٹ، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی حلقے کا دورہ نہیں کر سکتے۔

اِسی طرح چیئرمین و ڈپٹی چئیرمین سینیٹ، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اسمبلی حلقے کا دورہ نہیں کر سکتے۔ مراسلے کے مطابق وفاقی وزرا، وزرائے اعلٰی، گورنرز، صوبائی وزرا، وزیرِ اعظم و چیف منسٹرز کے مشیران بھی حلقے میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اِسی طرح بلدیاتی نمائندگان اور پبلک آفس ہولڈرز بھی انتخابی مہم میں شریک نہیں ہو سکتے۔

حکمران جماعت کے اُمیدوار کے بغیر الیکشن

اس ضمنی انتخاب کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف اِس میں حصہ نہیں لے رہی۔ پی ٹی آئی نے اِس ضمنی انتخاب کے لیے وزیرِاعظم کے سابق معاونِ خصوصی برائے فوڈ سیکیورٹی جمشید اقبال چیمہ کو اپنا اُمیدوار نامزد کیا تھا اور اُن کی اہلیہ مسرت جمشید چیمہ اُن کی متبادل اُمیدوار تھی۔ الیکشن کمیشن نے دونوں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے تھے۔

کس کا پلڑا بھاری؟

حلقہ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اُمیدوار شائستہ پرویز ملک ہیں۔ جو اِن دِنوں عدت کے باعث انتخابی سرگرمیوں سے دور ہیں۔ تاہم حلقے کے اسپورٹرز اُن کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

شائستہ پرویز ملک کے بیٹے علی پرویز ملک جو خود بھی لاہور کے حلقہ این اے 127 سے قومی اسمبلی کے رکن ہیں سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں قومی اسمبلی کا ہر حلقہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے علی پرویز ملک نے کہا کہ یہ ضمنی انتخاب اِس لیے بھی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ شاید یہ آخری ضمنی الیکشن ہو جس کے بعد پاکستان میں عام انتخابات ہوں گے۔ لہذٰا یہ ایک طرح سے آئندہ انتخابات کی ریہرسل ہے۔

علی پرویز ملک کہتے ہیں کہ مخالف سیاسی جماعتیں اِس انتخاب میں غیر پارلیمانی اقدامات کر رہی ہے۔

کیا پیپلزپارٹی ٹف ٹائم دے سکے گی؟

حلقہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اُمیدوار اسلم گل سمجھتے ہیں کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں اِس انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔ وہ ایک سیاسی کارکن کے حوالے سے اِس انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اسلم گل نے کہا کہ لاہور شہر بھٹو کا شہر تھا۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اِسی نشست سے منتخب بھی ہو چکے ہیں۔ جس کے بعد ضمنی الیکشن محمود علی قصوری جیتے۔

اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 1988 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی ہی کے خواجہ طارق رحیم یہاں سے منتخب ہوئے۔ جس کے بعد جہانگیر بدر نے یہاں سے ایک الیکشن میں 55 ہزار ووٹ حاصل کیے۔

اسلم گل کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک جذبے کے تحت یہ الیکشن لڑ رہی ہے۔ جو سیاسی طور پر اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے اُنہوں نے حلقہ کے عوام کو کچھ نہیں دیا۔

مبصرین کی رائے

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ این اے 133 چونکہ لاہور کا حلقہ ہے اور اِس سے قبل سیالکوٹ کے ضمنی اتنخاب میں پی ٹی آئی کو جو فتح ہوئی ہے اُس کے بعد یہ حلقہ سیاسی طور پر اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ اِس ضمنی انتخاب کے نتائج کا اثر آنے والے بلدیاتی انتخابات اور آئندہ عام انتخاب پر بھی پڑ سکتا ہے۔

اُن کے مطابق فتح یا شکست کا نفسیاتی اثر اگلے انتخابات پر پڑ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حلقے کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اِس ضمنی انتخاب کو سنجیدہ لے رہی ہیں اور اپنی سیاسی قوت کے ساتھ انتخاب لڑ رہی ہیں۔

سہیل وڑائچ کا مزید کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کا اُمیدوار نہ ہونے سے اب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ہی دو ایسی جماعتیں ہیں جو ووٹرز کو راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

سہیل وڑائچ کی رائے میں حلقے میں پی ٹی آئی کا ووٹر سوچ رہا ہے کہ اُسے کس طرف جانا ہے کیونکہ سننے میں یہ آیا ہے کہ اُنہیں کہا گیا ہے کہ وہ الیکشن والے دِن اپنے گھروں میں رہیں۔

سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ اِس حلقے سے ماضی میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور مسلم لیگ (ن) کے پرویز ملک جیتے ہوئے ہیں۔ یہ حلقہ لاہور کی لوئر کلاس اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہے۔ دوسری جانب اِسی حلقے میں کارخانوں اور ملوں میں کام کرنے والے مزدور بھی رہتے ہیں۔

اُن کے بقول اِس حلقے کے نتائج سے مستقبل کے رجحان کا پتا چلے گا۔ اُنہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ پتا چلے گا کہ پی ٹی آئی مہنگائی میں کس طرح سے اپنی کارکردگی دکھا رہی ہے۔

سہیل وڑائچ کی رائے میں عام طور پر جو سیاسی جماعت انتخابی عمل سے باہر ہو جاتی ہے تو اس کا ووٹر بھی ووٹ کاسٹ کرنے گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ یوں دیگر جماعتوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو باہر نکالیں تاکہ جیت کے امکانات بڑھ سکیں۔

سینئر صحافی سہییل وڑائچ کی خیال میں ذات برادری سیاسی طور پر زیادہ اثر نہیں ڈال سکے گی کیونکہ حلقے میں کافی ذات برادریاں رہتی ہیں۔ کوئی بھی ایسی بڑی ذات برادری نہیں رہتی جو انتخاب پر اثر ڈال سکے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے اُمیدوار اسلم گل کی رائے میں ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کا اُمیدوار نہ ہونے کے باعث اُن کا ووٹ پیپلزپارٹی کو ملے گا کیونکہ وہ 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی سے ناراض ہو کر پی ٹی آئی کی طرف گیا تھا۔ جہاں سے اُنہیں مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔

علی پرویز ملک سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا جو پرانا اور نظریاتی ووٹر ہے وہ تو پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ وہ شاید انتخاب والے دن اپنے گھر سے ہی باہر نہ نکلے یا کسی بھی جماعت کو ووٹ نہ دے۔

اُن کے بقول جن ووٹروں کو کسی قسم کا لالچ دیا جائے گا وہ کسی بھی طرف جا سکتے ہیں۔ البتہ ضمیر رکھنے والے ووٹرز حلقے کے مفاد اور ملکی سیاسی صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ دیں گے۔

ماضی کے نتائج

الیکشن کمیشن کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے پرویز ملک نے تقریباً 90 ہزار ووٹ حاصل کر کے یہ نشست جیتی تھی۔ جب کہ دوسرے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف کے اُمیدوار اعجاز چوہدری نے 70 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ اِسی انتخاب میں تحریکِ لبیک پاکستان کے امیدوار مطلوب احمد نے 13 ہزار ووٹ جب کہ پیپلز پارٹی کے اسلم گل نے 5558 ووٹ حاصل کیے تھے۔

XS
SM
MD
LG