رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں سیاست دان قتل، مقتول کی وابستگی پر تنازع


بھارتی کشمیر میں حکمران جماعت کے سابق رہنما قتل
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:43 0:00

غلام نبی پٹیل کی تدفین کے موقع پر جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔

'پی ڈی پی' کے آفیشل اکاؤنٹ سے کیے جانے والے ایک ٹوئٹ میں بھی پٹیل کو کانگریس پارٹی کا ایک سرکردہ لیڈر قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک قیمتی جان کو چھین کر ایک پورے خاندان کو برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں بُدھ کو ایک بھارت نواز سیاسی رہنما کو قتل کردیا گیا۔

حکام نے بتایا ہے کہ مقتول غلام نبی پٹیل دو پولیس محافظوں کے ہمراہ پلوامہ کے مضافات میں واقع راجپورہ کے علاقے سے گزر رہے تھے جب مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر خود کار ہتھیاروں سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔

فائرنگ سے تینوں افراد شدید زخمی ہوگئے جن میں سے غلام نبی پٹیل اسپتال لے جاتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔ دونوں پولیس محافظ امتیاز احمد زرگر اور بلال احمد میر اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

پولیس نے اس واقعے پر وادی میں سرگرم عسکریت پسندوں کو موردِ الزام ٹھراتے ہوئے کہا کہ پٹیل اور ان کے محافظوں پر حملہ دہشت گردوں نے کیا ہے۔

غلام نبی پٹیل کے قتل کی شورش زدہ ریاست میں سرگرم کسی بھی عسکری تنظیم نے تا حال ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ لیکن یہ قتل وادی میں ایک نئی اور منفرد سیاسی چپقلش کا مؤجب ضرور بن گیا ہے۔

مقتول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ حکمران پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سے وابستہ تھے۔ لیکن پارٹی کی صدر اور ریاست کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک ٹوئٹ میں یہ کہہ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ وہ کانگریس پارٹی کا ایک سرکردہ لیڈر تھے۔

محبوبہ مفتی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا، "سینئر کانگریس لیڈر جی این پٹیل، جنہیں آج جنگجوؤں نے راجپورہ میں ہلاک کردیا، کے کنبے سے دل کی گہرائیوں سے اظہارِ تعزیت کرتی ہوں۔ ایسی بزدلانہ حرکتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ ایک اور کنبے کو اُجاڑ دیا گیا ہے۔"

'پی ڈی پی' کے آفیشل اکاؤنٹ سے کیے جانے والے ایک ٹوئٹ میں بھی پٹیل کو کانگریس پارٹی کا ایک سرکردہ لیڈر قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک قیمتی جان کو چھین کر ایک پورے خاندان کو برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔

لیکن کانگریس نے جو بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے، کہا ہے کہ غلام نبی پٹیل دراصل پی ڈی پی کے سینئر کارکن تھے۔ کانگریس نے ان کے قتل پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہلاکتیں کسی بھی طرح کی ہوں انتہائی قابلِ مذمت ہیں۔

ریاست کے سابق وزیرِ خزانہ طارق حمید قرہ نے جو کچھ عرصہ پہلے 'پی ڈی پی' چھوڑ کر کانگریس پارٹی میں شامل ہوگئے تھے، اس امر کی تصدیق کی ہے کہ پٹیل 2014ء کے عام انتخابات کے دوران 'پی ڈی پی' میں شامل ہوگئے تھے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی علاقائی جماعت 'نیشنل کانفرنس' کے سربراہ صدر عمر عبداللہ نے 'پی ڈی پی' اور کانگریس دونوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اپنی کئی ٹوئٹس کے ذریعے ان سے استفسار کیا کہ کیا وہ پٹیل کو اس لیے قبول کرنے سے انکار کر رہی ہیں "تاکہ وہ اپنے اپنے کارکنوں سے یہ جھوٹ بول سکیں کہ ان کی جانوں کو عسکریت پسندوں کی گولیوں سے خطرہ نہیں ہے؟"

انہوں نے کہا، "یہ ایک المیہ ہے کہ پٹیل صاحب کو جو ایک سیاسی ورکر تھے اور جنہیں جنگجوؤں نے کشمیر میں قتل کردیا، پی ڈی پی اور کانگریس اپنانے سے انکار کررہی ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی انہیں اپنانے کے لیے تیار نہیں ہے تو آئیے انہیں نیشنل کانفرنس کا ورکر کہتے ہیں تاکہ ان کی موت رائیگاں نہ جائے۔"

عمر عبداللہ کے اس طنزیہ بیان کے جواب میں سرکردہ بھارتی ٹیلی ویژن صحافی سری نواسن جین نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا، "گزشتہ برس اپریل میں میرے ساتھی شیخ ظفر اقبال اور میں نے ان (پٹیل) کا انٹرویو کیا تو انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ پلوامہ میں پی ڈی پی کے ضلعی جنرل سیکریٹری ہیں۔"

اس ساری صورتِ حال پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ کے میڈیا مشیر رِشی سوری نے عمر عبد اللہ پر پٹیل کی موت پر غیر ضروری سیاست کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ حقائق یہ ہیں کہ مقتول کو پی ڈی پی کے بانی اور سرپرست مفتی محمد سعید نے اُس وقت آگے بڑھایا تھا جب وہ ریاست میں کانگریس پارٹی کے صدر تھے۔

انہوں نے مزید کہا، "وہ (پٹیل) پی ڈی پی کے ہمدرد تھے اور انہوں نے گزشتہ اسمبلی انتخابات کے دوراں راجپورہ حلقے میں پارٹی کی مدد کی تھی۔"

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ غلام نبی پٹیل ماضی میں محکمۂ صحت میں ملازم رہ چکے تھے اور انہوں نے 1991ء میں جب کشمیر میں مسلح جدوجہد عروج پر تھی کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ انہوں نے کانگریس کے ٹکٹ پر بھارتی پارلیمنٹ کا انتخاب بھی لڑا تھا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔

بعد میں انہوں نے ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے بھی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ایک سے زیادہ مرتبہ قسمت آزمائی کی لیکن انہیں ہر بار ہار کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد وہ پی ڈی پی میں شامل ہوگئے تھے۔

پی ڈی پی کے ایک لیڈر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ غلام نبی پٹیل کو گزشتہ برس پارٹی سے نکال دیا گیا تھا لیکن ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جس سے اس دعوے کی تصدیق ہوسکے۔

کئی کشمیریوں نے سوشل میڈیا پر پی ڈی پی اور کانگریس دونوں پر پٹیل کو اپنانے سے انکار کرنے پر نکتہ چینی کی ہے۔

ان میں سے بعض افراد کا کہنا تھا کہ ان جماعتوں کا رویہ ان لوگوں کے لیے چشم کُشا ہونا چاہیے جو کشمیر میں بھارت نواز جماعتوں پر اعتماد کرتے ہیں۔

ایک شخص نے فیس بُک پر لکھا، "پٹیل کو نہ خدا ہی ملا، نہ وصالِ صنم۔" فیس بُک استعمال کرنے والے ایک اور کشمیری نے لکھا، "اب پٹیل کو کوئی اپناتا ہے یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کم سے کم انہیں۔"

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG