رسائی کے لنکس

جمہوریتوں کا ایک تحقیقی مطالعہ


جمہوریتوں کا ایک تحقیقی مطالعہ
جمہوریتوں کا ایک تحقیقی مطالعہ

ایک نئی تحقیق کے مطابق گذشتہ چند برسوں میں دنیا میں جمہوریتوں کی تعداد نسبتاً مستحکم رہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ جمہوریتوں کی کوالٹی خراب ہو رہی ہے ۔

Bertelsmann Foundation Transformation Index کے ذریعے، جسے BTI بھی کہتے ہیں، دنیا کے 128 ترقی پذیر اور ایسے ملکوں میں جو تبدیلی کے عمل سے گذر رہے ہیں، جمہوریت اور منڈی کی معیشت کی جانب پیش رفت کی پیمائش کی جاتی ہے ۔سابئین ڈونر بی ٹی آئی کی سینیئر پراجیکٹ منیجر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان 128 ملکوں میں سے 76 ایسے ہیں جو جمہوری سمجھے جانے کی شرائط پوری کرتے ہیں ۔اس کی بنیاد ان کا طے شدہ طاقت کا ڈھانچہ، سیاسی آزادیاں، اختیارات پر پابندیوں اور روک ٹوک کا نظام، اور شہریوں کی روز مرہ زندگی میں شرکت ہے ۔

لیکن سابئین ڈونر انتباہ کرتی ہیں کہ تمام جمہوریتِں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ اس رپورٹ میں جن 76 جمہوریتوں کا مطالعہ شامل ہے، ان میں ہر ایک اچھی طرح کام کرنے والی جمہوریت کے مقابلے میں دو جمہوریتیں ایسی ہیں جن کی کارکردگی ناقص ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ ان میں23 جمہوریتیں ایسی ہیں جو ہر قسم کے نقائص سے پاک ہیں۔’’درجہ بندی کے لحاظ سے بقیہ 53 ملکوں کا شمار نقائص سے بھر پور جمہوریتوں میں ہوتا ہے ۔ ان ملکوں میں سیاسی اور شہری حقوق کی حالت اچھی نہیں ہے او ر مملکت کے مختلف شعبوں میں اختیارات کی علیحدگی کا خیال نہیں رکھا جاتا اگرچہ انتخاب نسبتاً آزادانہ ہوتے ہیں۔‘‘

ڈونر کہتی ہیں کہ ان میں سے 16 ملکوں میں ، جن میں روس، ہیٹی اور کینیا شامل ہیں، قانون کی حکمرانی کی حالت خاصی خراب ہے۔ حزبِ ِ اختلاف کو اپنی آواز بلند کرنے کے برابر کے مواقع نہیں ملتے۔نتیجہ یہ ہے کہ درجہ بندی میں یہ ملک بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو آمریت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔

اس تحقیقی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ماہرین نے روس اور وینزویلا میں آمرانہ رجحانات کا مشاہدہ کیا ہے نکارگوا اور جنوبی افریقہ میں قانون کی حکمرانی کا تصور کمزور ہوا ہے اور تھائی لینڈ اور ماریطانیہ میں تشدد کے استعمال سے جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ دیا گیا ہے ۔

Bertelsmann کے ماہرین کہتے ہیں کہ بادی النظر میں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ آمرانہ رجحانات پرورش پا رہے ہیں۔ تا ہم، ڈونر کہتی ہیں کہ سطحی طور پر جو کچھ نظر آتا ہے وہ اصل حقیقت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے’’نقائص سے بھر پور جمہوریتوں کا تناسب دگنا ہو گیا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں، اگرچہ جمہوریتوں کی مجموعی تعداد اتنی ہی ہے، لیکن بہت سے ملکوں کے سیاسی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘

BTI کے مطابق، پانچ شدید ناقص جمہوریتیں لاطینی امریکہ میں ہیں۔ یہ پانچ ملک ہیں ، ہیٹی، گواتےمالا، نکرا گوا، کولمبیا، اور ایکوڈر۔پانچ ناقص جمہوریتیں ، برکینا فاسو، کینیا، انگولا، Lesotho اور بروندی، افریقہ میں ہیں۔ چار کمزور جمہوریتیں ایشیا میں ہیں، یعنی نیپال، سری لنکا، تھائی لینڈ، فلپائن، اور ان کے علاوہ روس ہے ۔

مشرقِ وسطیٰ میں، شاید عراق کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ علاقے کا واحد ملک ہے جہاں بہت زیادہ ناقص جمہوریت قائم ہے لیکن پھر بھی وہاں جمہوریت تو ضرور ہے ۔اس انڈیکس کے ایک اور سینیئر منیجر Hauke Hartman کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ BTI میں عراق کو جمہوری ملک کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ عراق میں بہت زیادہ غیر مستحکم اور ناقص جمہوریت قائم ہے لیکن ہے وہ جمہوریت ہی۔

Hartman کہتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کا علاقہ کمزور ملکوں کا زون سمجھا جاتا ہے ۔عراق، لبنان اور یمن نیز جنوبی ایشیا کے ملک، پاکستان اور افغانستان کو کمزور ملک بلکہ ناکام ریاستیں سمجھا جاتا ہے ۔ ان کے الفاظ ہیں’’جیسا کہ آپ خود جانتے ہیں افغانستان میں صورت حال خاص طور سے بہت خراب ہے۔ اس کی وجہ وہاں کی سکیورٹی کی صورتِ حال ہے جس کی وجہ سے صدر حامد کرزئی صرف کابل کے میئر ہونے کا ہی دعویٰ کر سکتے ہیں۔ ملک کے بیشتر صوبوں میں دونوں طرف سے تشدد کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔‘‘

ڈونر کہتی ہیں کہ جیسے جیسے جمہوریت کمزور ہوتی ہے اس کے اثرات سیاسی شرکت کےبعض بنیادی اداروں، جیسے میڈیا کی آزادی پر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ BTI کے15 برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ بعض ملکوں میں اظہار رائے کی آزادی اتنی سختی سے محدود کر دی گئی ہے ۔بہت سے افریقی ملکوں کو بھی انحطاط کے اس دور سے گذرنا پڑ رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG