رسائی کے لنکس

آزادی صحافت اور 2010ء


آزادی صحافت اور 2010ء
آزادی صحافت اور 2010ء

2009 ءمیں صحافیوں کی ہلاکتوں کی شرح بہت بلند رہی۔ انٹرنیشنل نیوز سیفٹی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق سال 2010 ءمیں صحافیوں کی ہلاکتوں کے 42 واقعات پیش آئے جن میں سے کم سے کم 27 صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ اس سال سب سے زیادہ صحافی ہونڈارس میں ہلاک ہوئے جبکہ پاکستان اس حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں صحافیوں کو مختلف طرح کے چیلجنز کا سامنا ہے۔

پوری دنیا میں آزادیِ صحافت کا دن اس لیے منایا جاتا ہے تاکہ عام لوگوں تک یہ معلومات پہنچائی جا سکیں کہ دنیا بھر میں کن جگہوں پر آزادیِ اظہار پر پابندی ہے۔ اور یہ کہ صحافی کن مشکلات سے گزر کر اپنے پڑھنے سننے اور دیکھنے والوں کے کیے لیے روزانہ کی خبریں اکٹھی کرتے ہیں۔ اس کی خاطر اکثر انہیں جیلیں بھی کاٹنی پڑتی ہیں اور کئی ایک موت کے منہ بھی چلے جاتے ہیں۔

فرینک سمائتھ کا تعلق کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنسلٹس سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا بھر کے ممالک میں ہر روز آزادیِ صحافت کا دفاع کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال صحافیوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے خراب ترین سال تھا۔جس کی بڑی وجہ فلپائن میں ہونے والی ہلاکتیں ہیں جہاں ایک ہی واقعہ میں 30 صحافیوں قتل کر دیے گئے تھے۔لیکن دنیا بھر میں صحافیوں کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا میں 10 میں سے 9 مقدمات میں صحافیوں کے قاتل سزا ؤں سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق دنیا بھر کے جن ممالک میں صحافیوں کو حکومتوں کی جانب سے پابندیوں اور خطرات کا سامنا ہے ان میں ایران سرفہرست اور چین دوسرے نمبر پر ہے جہاں سب سے زیادہ صحافی جیلوں میں ہیں۔لیکن ایسے صحافی جو جنگ زدہ علاقوں میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داری پوری کر رہے ہیں، زیادہ خطرے میں ہیں کیونکہ وہ اکثر اوقات غلطی سے فوجی گولیوں کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں انٹر نیٹ پر ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں 2007 ءمیں بغداد کی گلیوں میں امریکی فوج کی غلطی سے فائرنگ میں رائٹرز کے کیمرہ مین اور اس کے ڈرائیور کو ہلاک ہوتے دکھایا گیا ہے۔

فرینک سمائتھ کا کہنا ہے کہ عراق ہر طرح سے صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک رہا ہے۔ ہماری یاداشتوں میں اور خصوصاً 2003 ءمیں امریکی حملے کے بعد سے اب تک وہاں تقریباً ایک سو سے زیادہ صحافی اور میڈیا کے اراکین ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے تقریباً دو تہائی کو قتل کیا گیاہے ۔ اور باقی مختلف واقعات میں ہلاک ہوئے جن خود کش حملے اور کراس فائر یا اسی قسم کے فائرنگ کے دیگر واقعات شامل ہیں۔

اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہلاک ہونے والے ہر 4 میں سے 3 صحافیوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ اور زیادہ تر ہلاکتیں جنگ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والے صحافیوں کو بھی گزشتہ ایک دہائی سے ان خطرات کا سامناہے۔CPJ کے ریکارڈ کے مطابق 2010 ءکی دہائی میں پاکستان میں 25 صحافی ہلاک ہوئے ۔

سمائتھ کہتے ہیں کہ CPJ بہترین انڈسٹری پریکٹس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ہم نیوز اداروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ ان صحافیوں کو سیکیورٹی ٹرینگ دے جو جنگ کی کوریج کے لیے جا رہے ہوں۔ اور وہ سامان جس کی ضرورت ہو جیسے اگر بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ کی ضرورت ہو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ صحافی جو جنگ زدہ علاقے میں کام کر رہا ہے اور اس کے بیوی بچے ہیں تو اسے ہیلتھ انشورنس اور لائف انشورنس دی جائے۔

ایسے کچھ واقعات میں صحافیوں کے خاندانوں کو مالی امداد بھی دی گئی ہے مگر اس کا دارومدار ادارے کے حجم پر ہے۔ کہ کیا وہ کوئی کم بجٹ والا کمیونٹی ریڈیو سٹیشن ہے یا پھر کوئی بڑا ٹیلی ویژن ہے۔

آزادیِ صحافت میں ملک کے اندر تو امریکہ کا ریکارڈ بہت شفاف ہے مگر ناقدین کہتے ہیں کہ امریکہ نے عراق اور افغانستان میں صحافیوں کو نہ صرف شک کی بنیاد پر گرفتار کیا بلکہ مقدمات چلائے بغیر انہیں قید میں بھی رکھا۔ جس کی بدترین مثال الجریرہ ٹی وی نیٹ ورک کے کیمرہ میں سمیع الحاج کو چھ سال تک گوانتانا مو بے میں قید رکھا جانا ہے۔

XS
SM
MD
LG