رسائی کے لنکس

مسیحی جوڑے کی ہلاکت، 18 مشتبہ افراد گرفتار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس تازہ واقعے پر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حکام مشتعل ہجوم کی طرف سے ایک شادی شدہ مسیحی جوڑے کو تشدد کے بعد آگ میں پھینک کر ہلاک کرنے کے واقعے میں 18 مشتبہ افراد کو تحویل میں لے کر تحقیقات کر رہے ہیں جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس واقعے کو ملک میں اقلیتوں کے لیے تشویشناک قرار دیتے ہوئے اس میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ایک روز قبل لاہور اور قصور کے درمیان واقع کوٹ رادھا کشن نامی علاقے میں مشتعل ہجوم نے اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے شہزاد مسیح اور اس کی بیوی شمع کو قرآن کی مبینہ بے حرمتی پر ہلاک کر دیا تھا۔

حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی ضعیم قادری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی قانون حرکت میں آیا اور 18 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو آئندہ 48 گھنٹوں میں تمام حقائق کی چھان بین کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

"ظلم کرنے والے بچ نہیں سکیں گے، انھیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔"

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر جان لیوا حملے کوئی نئی بات نہیں، اس سے قبل بھی توہین مذہب کے الزام میں خصوصاً مسیحی برادری پر مسلمان گروہوں کی طرف سے حملے اور ان کی املاک کو نذر آتش کرنے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔

ادھر انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس تازہ واقعے پر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

ایک بیان میں تنظیم کے ایشیا پیسیفک کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیوڈ گرفتھس نے مسیحی جوڑے پر مشتعل ہجوم کے وحشیانہ جان لیوا حملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ توہین مذہب کے الزام میں کسی کو بھی ایسے ہجوم کی طرف سے حملے کا سامنا کر پڑسکتا ہے اور قصور میں پیش آنے والا واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقامی حکومت کی طرف سے اس واقعے پر ردعمل حوصلہ افزا ہے لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ تحقیقات کے بعد کیا چیز سامنے آتی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اس واقعے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ان کی طرف سے علاقے میں بھیجے گئے ارکان نے جو شواہد جمع کیے ہیں ان سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوا کہ مسیحی جوڑے نے قرآنی نسخے کو نذر آتش کیا تھا۔

لاہور میں بدھ کو سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی اس واقعے پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومت سے موثر اقدامات کرنے کا کہا۔

XS
SM
MD
LG