رسائی کے لنکس

شمالی کوریا زیر حراست امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے کیا مطالبہ کر سکتا ہے؟


زیر حراست امریکی فوجی ٹریوس کنگ
زیر حراست امریکی فوجی ٹریوس کنگ

امریکہ کے لئے اپنے ایک فوجی کے شمالی کوریا فرار ہونے کے بعد اسے وطن واپس لانا ایک اہم ترجیح ہے لیکن مبصرین یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ شمالی کوریا کی حراست میں پہنچ جانے والے اس امریکی فوجی کو کس غرض کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟

شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا میں پرائیویٹ ٹریوس کنگ کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔ اور اس جیسی صورت حال کے بارے میں کوئی مثال بھی بہت کم ہی ملتی ہے۔چنانچہ شمالی کوریا کے آئندہ اقدامات کیا ہونگے، اس کے اندازے بھی بہت مختلف ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے جمعہ کو کہا ہے کہ واشنگٹن یہ جاننا چاہتا ہے کہ آرمی پرائیویٹ ٹریوس کنگ کو کہاں رکھاگیا ہے۔ یہ فوجی 18 جولائی کو شمالی کوریا میں داخل ہو گیا تھا۔

کوریا کی بھاری قلعہ بند سرحد کے آر پار کسی اختیار کے بغیر کسی کے آنے جانے کی کوئی مثال شاذو نادر ہی ملتی ہے۔

چند امریکیوں میں جو ماضی میں سرحد پار کرکے شمالی کوریا پہنچے۔ ان میں سپاہی، مبلغ، حقوق انسانی کی وکالت کرنے والے یا وہ لوگ شامل تھے جو دنیاکے سب سے زیادہ بند معاشروں میں سے ایک سمجھے جانے والے ملک شمالی کوریا کے بارے میں جاننے کے خواہش مند تھے۔

ان کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ کیا جائے اور ان سے کیسے نمٹا جائے، اس کے لئے شمالی کوریا نے مختلف طریقے اختیار کئے۔

1960 کے عشرے میں فرار ہو کر وہاں جانے والے چارلس جینکنس یا جیمز ڈریسنوک جیسےسپاہیوں کو پروپیگنڈہ اثاثوں کے طور پر استعمال کیا گیا۔

دیگر امریکیوں کو حراست میں لیا گیا، ان پر تنقید کی گئی، اور انہیں شمالی کوریا مخالف سرگرمیوں کے نام نہاد اعترافات کی بنیاد پر سخت سزائیں بھی دی گئیں، جن کے بارے میں بعد میں کہا گیا کہ ان سے زبردستی اعترافات کرائے گئے۔

پس پردہ درخواستوں اور طویل بیک ڈور مذاکرات کے بعد، زیر حراست افراد کو رہا کیا گیا اور کسی اعلیٰ سطحی امریکی اہلکار کے ساتھ گھر روانہ کیا گیا جو یہ رہائی حاصل کرنے کے لئے پیانگ یانگ گئے تھے۔

تاہم ایسا نہیں لگتا کہ کنگ کے سلسلے میں ان میں سے کسی بھی طریقہ کار کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے، جس کے بارے میں پیشگوئی کی جا سکے۔

واشنگٹن میں قائم اسٹمسن سینٹر کی ایک سینئیر فیلو اور شمالی کوریا پر مرکوز 38 نارتھ ویب سائٹ کی ڈائیریکٹر جینی ٹاؤن کا کہنا ہے کہ ٹریوس کنگ کے وہاں قیام کی مدت کا تعین ممکنہ طور سے اس بات پر منحصر ہو گا کہ آیا شمالی کوریا اس کی کہانی کو اپنے پروپیگنڈے کے لئے استعمال کرنے کا کوئی راستہ تلاش کر پاتا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کنگ کے بارے میں ایک نیوز بریفنگ میں سوالات کے جواب دے رہے ہیں، فوٹو اے پی۔18 جولائی 2023
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کنگ کے بارے میں ایک نیوز بریفنگ میں سوالات کے جواب دے رہے ہیں، فوٹو اے پی۔18 جولائی 2023

جینی ٹاؤن نے کہا کہ اگر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ امریکی فوجی کی کہانی کچھ زیادہ اچھی نہیں ، تو وہ اسے واپس بھی کر سکتے ہیں تاکہ امریکہ کے ساتھ پہلے ہی سے خراب تعلقات مزید خراب نہ ہوں۔ لیکن ،یہ زیادہ تر انتظار کرو اور دیکھو ، کی صورت حال ہے۔

لیکن جنوبی کوریا کی ایک یونیورسٹی کے صدر یانگ مو جن ، جو شمالی کوریا کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ نا ممکن ہے کہ شمالی کوریا، ایک ایسے زیر حراست امریکی فوجی کو پروپیگنڈے کے مقصد سے استعمال نہ کرے، جو اپنی مرضی سے ان کے ملک میں داخل ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے میں جب کہ کنگ کی فوری اہمیت پروپیگنڈہ کے نکتہ نظر سے ہی ہو سکتی ہے، پیانگ یانگ اسے سودے بازی کے ایک حربے کے طور پر، واشنگٹن سے رعائیتیں حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ شمالی کوریا مطالبہ کرے کہ کنگ کی رہائی کے عوض، امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ اپنی فوجی سرگرمیاں کم کرے۔

ٹریوس کنگ کی اس کے دادا کے گھر موجود ایک تصویر ، فوٹو اے پی 19 جولائی 2023
ٹریوس کنگ کی اس کے دادا کے گھر موجود ایک تصویر ، فوٹو اے پی 19 جولائی 2023

ادھر رائیٹر کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے جمعہ کے روز کہا ہے کہ واشنگٹن ،آرمی پرائیویٹ ٹریوس کنگ کا ٹھکانہ جاننا چاہتا ہے، جو 18 جولائی کو شمالی کوریا میں داخل ہو گیا تھا، اور ان معلومات کے حصول کے لیے پیانگ یانگ سے رابطہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ پرائیویٹ کنگ کے حوالے سے، بدقسمتی سے، میرے پاس شیئر کرنے کے لیے مزید معلومات نہیں ہیں۔ ہم یقیناً اس کی خیریت کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔ ہم نے شمالی کوریا سے اس بارے میں معلومات کے لیے رابطہ کیا ہے۔ میرے پاس اس وقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔‘‘

ریاست فلوریڈا میں ہونے والی ایسپین سیکیورٹی کانفرنس میں بلنکن نے یہ باتیں ایسے میں کہیں جب کنگ کے شمالی کوریا پہنچ جانےپر تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ قبل ازیں جمعرات کو، امریکی آرمی سیکریٹری کرسٹین ورمتھ نے اس معاملے پر اپنے پہلے عوامی تبصرے میں کہا تھا کہ واشنگٹن پیانگ یانگ سے رابطہ کرنے کی کوشش میں پوری طرح متحرک ہے جس میں اقوام متحدہ کے مواصلاتی چینلز کے ذریعےرابطے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

جمعے کے اپنے تبصروں میں، بلنکن نے یہ بھی اعادہ کیا کہ واشنگٹن "شمالی کوریا کے ساتھ جوہری پروگرام پر بغیر کسی پیشگی شرط کے مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہے۔"

(اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد اے پی اور رائیٹر سے لیا گیا ہے۔)

XS
SM
MD
LG