رسائی کے لنکس

بھارت: تاج محل کو ایک کروڑ روپے سے زائد کے پراپرٹی اور واٹر ٹیکس کے نوٹسز جاری


بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر آگرہ میں واقع تاج محل کو اس کی 370 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پراپرٹی اور واٹر ٹیکس کے سلسلے میں ایک کروڑ روپے سے زائد کے نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔ یہ نوٹس آگرہ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں اسے اٹیچ (ضبط) کرلیا جائے گا۔

محکمۂ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر راج کمار پٹیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اے ایس آئی کو تین نوٹس ملے ہیں، جس میں دو تاج محل کے سلسلے میں اور ایک آگرہ کے قلعہ کے سلسلے میں ہے۔

ان کے مطابق تاج محل سے متعلق ایک نوٹس ایک لاکھ چالیس ہزار روپےپراپرٹی ٹیکس کا ہے جب کہ دوسرا ایک کروڑ روپے کا واٹر ٹیکس سے متعلق ہے۔ رپورٹس کے مطابق یہ بل رواں مالی سال کے لیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آگرہ قلعے کے بارے میں نوٹس کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے موصول ہوا ہے جو کہ پانچ کروڑ روپے سے زائد کا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تاج محل اور آگرہ قلعے کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔

دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ نوٹس غلطی سے جاری کیے گئے ہوں۔

راج کمار پٹیل کے مطابق پراپرٹی ٹیکس یا ہاؤس ٹیکس کے قوانین کا اطلاق قومی یادگاروں پر نہیں ہوتا۔ یہ ضابطہ اترپردیش میں بھی ہے اور دیگر ریاستوں میں بھی ہے۔

ان کے بقول جہاں تک واٹر ٹیکس کے نوٹس کی بات ہے تو پہلے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔اس کے علاوہ تجارتی مقاصد کے لیے یہاں واٹر کنیکشن ہے بھی نہیں۔ تاج محل کے احاطے میں لان کی دیکھ بھال اے ایس آئی کرتا ہے اور لان عوامی خدمات کے لیے ہے، لہٰذا اس کے لیے کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی۔

آگرہ کے میونسپل کمشنر نکھل ٹی فنڈے نے اخبار 'ٹائمز آف انڈیا' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں 16 ویں صدی کی عمارت کو نوٹس جاری کیے جانے کا کوئی علم نہیں ہے۔ تاہم تمام سرکاری اور مذہبی عمارتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ بقایہ ٹیکس ادا کریں۔

رپورٹس کے مطابق میونسپل کارپوریشن کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی کے لیے ایک نجی کمپنی کی خدمات حاصل کی ہیں، جس نے یہ نوٹس بھیجے ہوں گے۔

واضح رہے کہ تاج محل کو برطانوی دور حکومت میں 1920 میں محفوظ یادگار قرار دیا گیا تھا۔ اسے مغل حکمران شاہ جہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں 1632 سے 1648 کے درمیان تعمیر کرایا تھا۔ جب کہ آگرہ کے قلعے کی تعمیر مغل حکمران بابر نے کرائی تھی اور وہ 1638 تک مغل حکمرانوں کی اصل رہائش گاہ تھی۔

آگرہ کے معروف سماجی کارکن محمد اقبال کہتے ہیں کہ آگرہ میں واقع اعتماد الدولہ کے مقبرے کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے تاہم اس کو میڈیا میں اتنی جگہ نہیں ملی جتنی کہ تاج محل کے نوٹس کو ملی ہے۔

اس مقبرے کو مغل حکمران جہاںگیر کی ملکہ نور جہاں نے اپنے والد مرزا غیاث کی یاد میں تعمیر کرایا تھا۔ انہیں اعتماد الدولہ کا خطاب ملا ہوا تھا۔ کسی زمانے میں اسے بچہ تاج محل یا بے بی تاج محل بھی کہا جاتا تھا۔

محمد اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکام کی جانب سے جاری ان نوٹسز کو مقامی رہائشی کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ تاج محل کے معاملے میں شوشے چھوڑے جاتے رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ بھی اسی قسم کی کوئی کارروائی ہو۔

ان کے خیال میں چوں کہ تاج محل دنیا بھر میں مشہور ہے اور دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے لہٰذا اس کے بارے میں جو بھی خبر آتی ہے وہ فوراً وائرل ہو جاتی ہے۔ ان کے بقول عوام کو مختلف معاملات میں الجھائے رکھنے کے لیے اس قسم کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔

وہ دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے تاج محل کے تیجومحل مندر ہونے کے دعوے اور اس کے تہہ خانوں کو کھولنے اور ان کی تاریخ معلوم کرنے کے اقدامات کو محض شوشہ بازی قرار دیتے ہیں۔

ان کے بقول آگرہ کے رہائشیوں پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی تاج محل کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی تعداد پر کوئی اثر پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سالانہ 60 لاکھ سے زائد ملکی و غیر ملکی سیاح تاج محل کو دیکھنے آتے ہیں۔

آگرہ کے صحافی اظہر عمری اور خاور ہاشمی کا کہنا ہے کہ آگرہ میونسپل کارپوریشن کے حکام کے درمیان آپسی رسہ کشی چلتی رہتی ہے لہٰذا ممکن ہے کہ نوٹس کا اجرا اسی رسی کشی کا نتیجہ ہو۔ ان کے خیال میں اس معاملے میں سیاسی رہنما شامل نہیں ہوں گے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG