رسائی کے لنکس

جماعت الدعوۃ و دیگر شدت پسند تنظیموں پر مستقل پابندی عائد کرنے کی تجویز


حافظ سعید (فائل فوٹو)
حافظ سعید (فائل فوٹو)

حکومت کے اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس مقصد کے لیے ایک مجوزہ بل آئندہ ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا جاسکتا ہے۔

پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت اس آرڈیننس کو ایک مستقل قانون کی شکل دینے کے معاملے پر غور کر رہی ہے جس کے تحت جماعت الدعوہ سمیت ان تمام تنظیموں پر مستقل بنیادوں پرپابندی عائد کر دی جائے گی جن پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پہلے ہی تعزیرات عائد کر چکی ہے۔

حکومت کے اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس مقصد کے لیے ایک مجوزہ بل آئندہ ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ حکومت چند مزید اقدامات پر بھی غور کر رہی ہے۔تاہم عہدیدار نے ان اقدامات کی وضاحت نہیں کی۔

واضح رہے کہ حکومت نے رواں سال فروری میں انسدادِ دہشت گردی کے قانون میں ایک ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے ان شدت پسندوں تنظیموں پر پابندی عائد کردی تھی جن پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل تعزیرات عائد کر چکی ہے۔

پاکستان کے آئین کے تحت صدر کی طرف سے جاری کردہ آرڈیننس چار ماہ کے بعد موثر نہیں رہتا اگر قومی اسمبلی اس کی مدت میں مزید توسیع نہیں کرتی ہے۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تازہ حکومتی اقدام سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ایسی کوئی صورت حال پیدا ہونے سے پہلے ہی حکومت اس آرڈیننس کو باقاعدہ قانون کی شکل دینے کی کوشش کرے گی۔

حالیہ سالوں میں پاکستان کو بین الاقوامی برادری کے طرف سے حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ سمیت متعدد شدت پسند تنظییموں کے خلاف کارروائی نا کرنے پر تنقید کا سامنا رہا ہے تاہم مبصرین کے خیال میں حکومت کے تازہ اقدام بین الاقوامی برادری کے تحفظات دورکرنے میں معاون ہوں گے۔

سلامتی کے امور کے تجزیہ کار اور پاکستان کے سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ " اگرچہ معاشرے کے بعض حلقے ایسے اقدامات سے خوش نہیں ہیں مگر حکومت کو پتا ہے کہ اگر آپ نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ رہنا ہے ان کی مدد لینی ہے تو ان کی قراردادوں پر عمل درآمد کروانا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ منطقی طو ر پر درست اقدام ہے اگر آرڈیننس کو مستقل طور پر قانون کی شکل دی جارہی ہے۔"

تاہم تسنیم نورانی کے خیال میں بین الاقوامی برادری کو پاکستان کی بعض مشکلات کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

"اگر پاکستان کی انتظامی مشینری اتنی موثر ہوتی تو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات بھی نا ہوتے تو اس لیے پاکستان پر شک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ملک کے اندر جو دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں وہ تو پاکستان کے مفاد میں نہیں لیکن ان واقعات کو روکنے میں بھی بعض اوقات ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو یہ دیکھنا چاہیے کہ صلاحیت کی کمی کو بدنیتی سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔"

واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں پاکستانی حکام نے جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی سرگر میوں کو روکنے کے لیے ان کے اثاثوں کو ناصرف سرکاری تحویل میں لینے کے اقدام شروع کیے بلکہ اس حوالے سے مزید اقدامات کی بھی توقع کی جارہی ہے۔

یہ اقدامات ایک ایسے وقت کیے جارہے ہیں جب چند ہفتوں کے بعد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے مالی وسائل کی روک تھام سے متعلق بین الاقوامی ادارہ 'فنانشل ایکشن ٹاسک فورس' پاکستان کا نام ان ملکوں کی واچ لسٹ میں باضابطہ طورپر شامل کرنے یا نہ کرنے پر فیصلہ سنائے گا جنہوں نے دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے ہیں۔

XS
SM
MD
LG