رسائی کے لنکس

کشمیر: بھارت کی عائد پابندیوں میں نرمی کے بعد احتجاج، جھڑپیں


فائل
فائل

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عوام کی نقل و حرکت پر دو ہفتے پہلے عائد کی گئی پابندیوں میں ہفتے کو نرمی کی گئی، جس کے ساتھ ہی مختلف علاقوں میں لوگوں کی بڑی تعداد نے سڑکوں پر احتجاج کیا اور سیکورٹی فورسز سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔

شورش زدہ ریاست کے بعض علاقوں میں فون اور انٹرنیٹ سہولیات جزوی طور پر بحال کی گئی ہیں۔

حکومت کے ترجمان روہت کنسل نے ذرائع ابلاغ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وادی کشمیر میں 35 پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں عائد پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ پوری صورتِ حال کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور کسی بھی علاقے سے ناخوشگوار واقعے کے پیش آنے کی اطلاع نہیں ہے۔

دوسری جانب سرینگر کے بعض علاقوں میں پابندیوں میں نرمی اور اضافی سیکورٹی فورسز کے ہٹتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات کے خلاف شدید احتجاج کیا۔

چند ایک مقامات پر پولیس اور نیم فوجی دستوں نے مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والے ہجوموں پر آنسو گیس کی شیلنگ کی اور ڈنڈوں کا بھی آزادنہ استعمال کیا جس کے نتیجے میں کئی مظاہرین کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

ضلع بڈگام کے علاقے چاڈورہ میں سیکورٹی اہلکاروں نے چھرے والی بندوقوں کا استعمال کیا جس سے دو افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

ہفتے کو جہاں ایک طرف سرینگر کے ایک وسیع علاقے میں کشیدگی دکھائی دی وہیں کاروباری مراکز بند اور سڑکیں سنسان رہیں۔ سرینگر کے بعض حصوں میں نجی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ محدود پیمانے پر پبلک ٹرانسپورٹ سروس بھی چلنے لگی اور کہیں کہیں دکانیں بھی کھولی گئیں۔

حکومت کے ترجمان نے کہا کہ وادی میں موجود 100 ٹیلی فون ایکسچینجز میں سے 17 کو دوبارہ شروع کیا گیا ہے، جو سول لائنز، فوجی چھاؤنی اور ایئرپورٹ کے علاقوں میں واقع ہیں۔

روہت کنسل نے کہا کہ وادی کے دیگر علاقوں میں لینڈلائن سروس اتوار کی شام تک بحال کی جائے گی۔

ریاست کے جموں خطے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کو جزوی طور پر بحال کر دیا گیا ہے اور بیشتر اضلاع میں عائد حفاظتی پابندیوں کو بھی مکمل یا جزوی طور پر ہٹالیا گیا ہے جب کہ وادی میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس مکمل طور پر بند ہیں۔
دوسری جانب ہارورڈ یونیورسٹی کے 124 موجودہ اور سابق طالبعلموں، اساتذہ اور دوسرے متعلقین نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے سابق سول سرونٹ شاہ فیصل کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ انہیں اور گرفتار کیے گیے دیگر مقامی لیڈروں اور سرگرم کارکنوں کو فوری طور پر رہا کرے۔

ایک مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا "ہمیں ریاست میں عائد پابندیوں اور مقامی رہنماؤں کی گرفتاری پر تشویش ہے، جن میں ہارورڈ کا ایک طالبعلم اور سیاست دان شاہ فیصل شامل ہیں۔‘‘

یاد رہے کہ سال 2009 میں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے امتحان میں پورے بھارت میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے شاہ فیصل نے رواں سال جنوری میں سرکاری عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد باضابطہ طور پر سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔

انہوں نے مارچ میں جموں و کشمیر عوامی تحریک کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دی تھی۔

شاہ فیصل اُن 600 سے زائد سیاسی رہنماوؑں، کارکنوں، تاجر انجمنوں اور سول سوسائٹی گروپس کے عہدیداروں اور دوسرے سرکردہ شخصیات میں شامل ہیں جنہیں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے گزشتہ دو ہفتے کے دوراں حراست میں لیا ہے۔

اُدھر جموں میں بھارتی فوج کے ایک ترجمان نے ہفتے کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائن کے نوشہرہ سیکٹر میں پاکستانی فوج نے بلا اشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک بھارتی فوجی لانس نائک سندیپ تھاپا ہلاک ہوگیا ہے۔

ترجمان نے پاکستانی فوج پر بھارتی فوج کی اگلی چوکیوں کے ساتھ ساتھ ضلع راجوڑی کے شہری علاقوں کو بھی ہلکے ہتھیاروں اور مارٹر توپوں سے ہدف بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ بھارتی فوج نے پاکستانی فائرنگ اور شیلنگ کا مناسب جواب دیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھارتی الزامات پر تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG