رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: بی جے پی رہنماؤں کے متنازع بیانات پر احتجاج، مختلف علاقوں میں کرفیو


بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کے پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیانات پر بھارتی کشمیر میں بھی احتجاج کا سلسلہ ہے۔ نقصِ امن کے خدشے کے پیشِ نظر حکام نے مختلف علاقوں میں کرفیو لگا دیا ہے۔

بھارتی کشمیر میں زیادہ کشیدگی مشرقی شہر بھدرواہ میں ہے جہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ ورانہ فسادات پھوٹنے کے خدشے کے پیشِ نظر جمعرات کی شب سے کرفیو نافذ ہے۔

جمعے کی صبح بھدرواہ میں سیکیورٹی فورسز اور مشتعل ہجوم کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں آنسو گیس بھی استعمال کی گئی۔ حکام کا مؤقف ہے کہ مظاہرین نے سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا جس کے جواب میں شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا۔

بھدرواہ میں کسی بھی ںاخوش گوار واقعے سے نمٹنے کے لیے حساس مقامات پر نیم فوجی دستے اور پولیس تعینات ہے۔

بھارتی کشمیر کے شہروں کشتواڑ اور ڈوڈہ میں بھی کرفیو لگا دیا گیا ہے جب کہ ایک اور ضلعی صدر مقام رام بن اور اس کے مضافات میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

فرقہ ورانہ کشیدگی کے حوالے سے حساس سمجھی جانے والی وادیٔ چناب میں انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی گئی ہیں جب کہ مختلف علاقوں میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔

جموں میں ایک اعلٰی سرکاری عہدے دار رمیش کمار نے بتایا کہ صورتِ حال قابو میں ہے۔

نئی دہلی میں وزیرِ مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے بتایا کہ وہ بھدرواہ، کشتواڑ، ڈوڈہ اور رام بن کے ضلع ڈپٹی کمشنروں اور اعلیٰ پولیس افسراں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔


وادی چناب میں فرقہ وارانہ کشیدگی کیسے شروع ہوئی؟

چناب وادی کی کُل آبادی تقریبا" 10 لاکھ ہے جس میں سے مسلمان 60 اور ہندو 40 فی صد ہیں۔اگرچہ اس خطے میں ماضی میں بھی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان سیاسی اور دیگر وجوہات کی بنا پُر کشیدگی رہی ہے۔ لیکن بی جے رہنماؤں نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے حال ہی میں دیے گئے پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیانات کے باعث ایک بار پھر حالات کشیدہ ہوگئے ہیں۔

جمعرات کولگاتار دوسرے دن بھی مقامی مسلمانوں نے یہاں احتجاجی مظاہرے کیے اور بی جے پی رہنماؤں کی گرفتاری کے مطالبات کیے گئے۔

سرینگر میں بھی ہڑتال

بی جے پی رہنماؤں کے متنازع بیانات پر جمعے کو سرینگر میں بھی ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔

شہر کے تاریخی مرکزی مقام لال چوک اور بٹہ مالو سمیت بعض دوسرے علاقوں میں مظاہرے کیے گئے۔ مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر میں بھی موبائل انٹرنیٹ سروسز بند ہیں جب کہ سیکیورٹی بھی بڑھا دی گئی ہے۔ سرینگر کی جامع مسجد میں بھی جمعے کے اجتماع کی اجازت نہیں دی گئی۔


مندر میں توڑ پھوڑ سے حالات کشیدہ

بی جے رہنماؤں کے متنازع بیانات کے بعد چند روز سے سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر بھی گردش کر رہی ہیں جن میں بھدرواہ کے علاقے کیلاش کنڈ میں ایک مندر میں مبینہ طور پر توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔

اس واقعے کے بعد مقامی ہندو کمیونٹی نے بھی ہڑتال کی کال دی تھی جس کے بعد علاقے میں کشیدگی کا ماحول ہے۔


عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مقامی پولیس تھانے میں مقدمہ درج کردیا گیا ہے اور واقعے میں ملوث افراد کی تلاش شروع کردی گئی ہے۔ تاہم حکام کے مطابق واقعے سے متعلق بعض شواہد مندر میں چوری کی واردات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

کشتواڑ میں پولیس نے نوپور شرما کے حق میں سوشل میڈیا پر چلائی جانے والے مہم کے سلسلے میں ایک مقدمہ درج کر کے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ فرقہ ورانہ کشیدگی کو بڑھانے کی کوئی کوشش نہ کریں۔

پولیس ایک شخص کو شناخت کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے جس نے جمعرات کو بھدرواہ کی جامع مسجد میں ایک تقریر میں مبینہ طور پر ہندوؤں کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کیے تھے۔

جموں میں پولیس کے ایک ترجمان نے کہا کہ اشتعال انگیز سوشل میڈیا پوسٹس کے حوالے سے ایک ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔ ترجمان نے کہا "کوئی بھی ہو اور کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو فرقہ وارانہ صورتِ حال پیدا کرنے میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے لوگوں سے امن اور فرقہ وارانہ بھائی چارہ قائم رکھنےکی اپیل کی ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا " میں بھدرواہ میں پیدا ہونے والی ناخوش گوار صورتِ حال سے انتہائی پریشان ہوں۔


چناب وادی کے سرکردہ سیاسی کارکن اور معروف قانون داں عاصم ہاشمی نے مسلمانوں اور ہندوؤں، دونوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کو ہدفِ تنقید بنانے سے گریز کریں۔

حکومتی عہدداروں نے کہا کہ وہ دونوں فرقوں سےتعلق رکھنے والے سرکردہ شہریوں اور دوسری بااثر شخصیات کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ان کے ذریعے چناب خطے میں پیدا شدہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کیا جاسکے۔

اس دوراں بھارتی دارالحکومت دہلی میں تاریخی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں نے بی جے پی رہنماؤں کے پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیانات کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ کیا۔ اس طرح کے مظاہروں کی اطلاعات بھارت کے کئی دوسرےحصوں سے بھی موصول ہو رہی ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG