رسائی کے لنکس

وزیرِ اعلٰی پنجاب کا انتخاب، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لاہور میں ڈیرے


پنجاب میں وزارتِ اعلٰی کے 22 جولائی کو ہونے والے انتخاب سے قبل تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی جمعرات کو لاہور پہنچ رہے ہیں۔
پنجاب میں وزارتِ اعلٰی کے 22 جولائی کو ہونے والے انتخاب سے قبل تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی جمعرات کو لاہور پہنچ رہے ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف حکومت بنانے کے لیے فیورٹ سمجھی جا رہی ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے بھی واضح کیا ہے کہ وہ وزارتِ اعلٰی کے لیے چوہدری پرویز الہٰی کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔

البتہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اتنی آسانی سے چوہدری پرویز الہٰی کو وزیرِ اعلٰی نہیں بننے دے گی۔ رانا ثناء اللہ کے اس بیان پر تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) نے سخت ردِعمل دیتے ہوئے شفاف انتخابات کے لیے عدالت سے رُجوع کیا ہے۔

رانا ثناء اللہ نے نجی نیوز چینل 'جیو' کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ جس روز پنجاب میں وزارتِ اعلٰی کا انتخاب ہو، تحریکِ انصاف کے کچھ اراکین ایوان میں نہ آئیں۔

خیال رہے کہ پنجاب میں وزارتِ اعلٰی کا انتخاب 22 جولائی کو ہونا ہے اور اس ضمن میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پرامن اور شفاف انداز میں یہ انتخاب کرانے کا حکم جاری کر رکھا ہے۔

پنجاب میں سیاسی کشمکش مارچ میں وزیرِ اعلٰی عثمان بزدار کے استعفے کے بعد سے ہی جاری ہے۔ وزارتِ اعلٰی کے انتخاب کے دوران ہونے والی ہنگامہ آرائی اور لاہور ہائی کورٹ میں حمزہ شہباز کے بطور وزیرِ اعلٰی انتخاب کے کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اب بھی پنجاب میں سیاسی پارہ بلند ہے۔

لیکن تحریکِ انصاف کے اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے باعث ضمنی انتخابات میں 20 میں سے 15 نشستیں جیت کر تحریکِ انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے اور اب دونوں سیاسی جماعتیں دوبارہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔

ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی فتح، اب آگے کیا ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:45 0:00

سیاسی قیادت کے لاہور میں ڈیرے

پنجاب کی وزارتِ اعلی کے معاملے پر پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے لاہور میں سیاسی میدان سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے عمران خان کی ہدایت پر شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، شیخ رشید اور اسد عمر لاہور پہنچ چکے ہیں جو مشاورتی اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کل لاہور پہنچیں گے وہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے ارکانِ اسمبلی کے ساتھ ملاقات کرنے کے علاوہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

وزارتِ اعلٰی کے لیے نمبر گیم

ضمنی انتخابات کے بعد پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم کو دیکھا جائے تو پی ٹی آئی سرِ فہرست ہے۔ ضمنی انتخابات میں 15 نشستیں ملنے کے بعد اب پارٹی کی پنجاب اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد 178 ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اب 167 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔مسلم لیگ (ق) کی 10 جب کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی پنجاب اسمبلی میں سات نشستیں ہیں۔

پی ٹی آئی کی رکن پنجاب اسمبلی اور سیکریٹری اطلاعات پنجاب مسرت جمشید چیمہ سمجھتی ہیں کہ صوبہ پنجاب میں گزشتہ چند ماہ میں جو بھی سیاسی کام ہوئے ہیں وہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہوئے جس سے صوبے میں اور ملک میں لاقانونیت ظاہر ہوتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ وزیراعلٰی پنجاب کے لیے پی ٹی آئی اور اِس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے پاس مطلوبہ 186 اراکین کی تعداد پوری ہے۔ کوئی بھی رکن مسلم لیگ (ن) کے ساتھ نہیں مل سکتا۔

اُن کے بقول حالیہ ضمنی انتخابات میں سیاسی طور پر اور معاشرتی طور پر لوگوں نے منحرف ارکان کا بائیکاٹ کیا ہے۔

رانا ثناءاللہ کے بیان سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ رانا ثناء اور پوری مسلم لیگ (ن) سے کچھ بھی بعید نہیں۔ وہ ارکان اسمبلی کو روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اُن کی جماعت کے کسی بھی رکن کے ساتھ کوئی حادثہ بھی کر سکتے ہیں۔

اپنی جماعت کی حکمتِ عملی بتاتے ہوئے مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ جماعت کی جانب سے تمام ارکان کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں میں رہیں اور اپنی حفاظت کا خود بندوبست کریں۔ اُنہوں نے کہا کہ ارکان کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ ارکانِ اسمبلی اپنی حفاظت کے لیے نجی گارڈز کی خدمات بھی لے سکتے ہیں۔

چوہدری پرویز الہٰی پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کے لیے تحریکِ انصاف کے اُمیدوار ہیں۔
چوہدری پرویز الہٰی پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کے لیے تحریکِ انصاف کے اُمیدوار ہیں۔


رکنِ پنجاب اسمبلی مسرت جمشید چیمہ نے کہا اِس وقت پی ٹی آئی کے تمام ارکان اسمبلی متحد ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو عمران خان اور بزدار صاحب کے خلاف بننے والے سیاسی محاذ پر بھی جماعت کے ساتھ رہے تھے۔

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کا موؐقف جاننا چاہا لیکن سینئر رہنما عطاءاللہ تارڑ نے اس معاملے میں گفتگو سے گریز کیا۔

یاد رہے کہ منگل کی شام لاہور میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی اور ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ تھا کہ وہ پنجاب کی وزارتِ اعلٰی آسانی سے پی ٹی آئی کو نہیں دیں گے۔

خیال رہےکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اپنے ارکانِ اسمبلی اور اپنے اتحادیوں کو لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں اجتماعی طور پر متحد رہنے کی تلقین کر رکھی ہے اور اپنی حکمتِ عملی مرتب کر لی ہے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی و اتحادی ارکان اسمبلی 22 جولائی تک رائل سوئس نامی نجی ہوٹل میں قیام کریں گے۔

ذرائع کے مطابق 22 جولائی تک وزیراعلی کے انتخاب کے دن تمام ارکان اسمبلی حمزہ شہبازشریف کی قیادت میں ہوٹل سے پنجاب اسمبلی اجلاس جائیں گے۔ ذرائع نے دعوٰی کیا ہے کہ 22 جولائی کو قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہونے کا خدشہ ہے۔ لیگی اراکین کو ٹولیوں کی صورت میں ایوان میں داخل ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG