رسائی کے لنکس

سفیروں کی خط و کتابت پر قومی اسمبلی میں بحث کا مطالبہ


فائل
فائل

پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے تحریک التوا بدھ کو پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے جمع کرائی۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے دو سینئر افسران کے درمیان ہونے والی خط وکتابت اور ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات سفارتی حلقوں میں موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں اور اب اس معاملہ کی بازگشت پارلیمان تک پہنچ گئی ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں ایک تحریکِ التوا جمع کرائی ہے جس میں ایوان کی معمول کی کارروائی روک کر وزارتِ خارجہ کے دونوں افسران کے مابین تلخ خط وکتابت کے معاملے پر بحث کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کا 5 جولائی کو امریکہ میں پاکستان کے سفیراعزازچوہدری کو لکھا گیا ایک خط منظرِعام پر آیا تھا جس میں عبدالباسط نے الزام لگایا تھا کہ اعزاز چوہدری پاکستان کے بدترین سیکرٹری خارجہ رہے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے تحریک التوا بدھ کو پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے جمع کرائی۔

تحریکِ التوا میں کہا گیا ہے کہ پاکستان جس نازک دور سے گزررہا ہے اس میں سفارت کاروں کے درمیان اس طرح کے اختلافات سامنے آنا درست نہیں لہذا اسمبلی میں اس معاملہ پر بحث کی جائے۔

جمع کرائی گئی تحریک پر تحریکِ انصاف کے دیگر ارکانِ قومی اسمبلی بشمول ڈاکٹر شیریں مزاری، منزہ حسن، کرنل امیراللہ مروت اور ڈاکٹر عمران خٹک کے دستخط بھی ہیں۔

اپنے خط میں عبدالباسط نے کہا تھا کہ اعزاز چوہدری امریکہ میں پاکستان کے بدترین سفیر ہوں گے کیوں کہ وہ ان کے بقول سفارت کاری کے نازک پیشے کے قابل نہیں۔

سابق ہائی کمشنر نے کہا تھا کہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں اعزاز چوہدی کو واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے سفیر کے عہدے سے ہٹانے کی ضرورت ہے۔

عبدالباسط نے خط میں اعزاز چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا تھا کہ برطرف نہ ہونے کی صورت میں بھی آپ کو فروری 2018ء کے بعد توسیع نہیں ملنی چاہیے۔ آپ جیسے لوگوں کی اہم عہدوں پر موجودگی پر اللہ تعالی ہی پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

عبدالباسط نے کہا تھا کہ اوفا اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ اور انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کی ناکامی ان کے اس موقف کا ثبوت ہے۔

اس خط کے جواب میں امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری کا جواب بھی منظرِ عام پر آگیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عبدالباسط ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن حسد کاکوئی علاج نہیں۔

اعزاز چوہدری نے کہا تھا کہ عبدالباسط کی غلط فہمی ہے کہ وہ میری وجہ سے سیکرٹری خارجہ نہیں بن سکے۔

اعزازچوہدری نے اپنے جوابی خط میں لکھا تھا کہ عبدالباسط یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ زندگی کوشش اورقسمت کے ملاپ کا نام ہے۔ دوسرے پرکیچڑ اچھالنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ زندگی نے جو ہمیں دیا اسے عاجزی سے قبول کر لینا چاہیے۔

اعزازچوہدری نے مزید لکھا کہ عبدالباسط کا خط بدترین اورغیر واضح ہے۔ چوں کہ انہوں سوشل میڈیا کا سہارا لیا اس لیے انہیں بھی اپنے خیالات منظرِ عام پر لانے پڑ رہے ہیں حالاں کہ ان کے بقول انہوں نے اس خط پر کوئی ردعمل نہ دے کر معاملہ اللہ کے سپرد کردیاتھا۔

عبدالباسط خان بھارت سمیت کئی ملکوں میں پاکستان کے متحرک سفارت کار کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں۔

تاہم اعزاز چوہدری کی امریکہ میں بطور سفیرتعیناتی کے بعد ان سے جونیئر بیوروکریٹ تہمینہ جنجوعہ کو سیکریٹری خارجہ بنائے جانے پر انہوں نے احتجاجاً قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

XS
SM
MD
LG