رسائی کے لنکس

پی ٹی ایم سوات جلسے میں رکاوٹوں کے باوجود ہزاروں افراد شریک


کبل میں پی ٹی ایم کا جلسہ
کبل میں پی ٹی ایم کا جلسہ

پشتون تحفظ تحریک کے رہنماؤں نے اپنے آئینی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے مطالبات جائز ہیں اور انھیں تسلیم کیا جانا چاہیے۔

اتوار کو سوات میں کبل کے مقام پر منعقدہ جلسے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے جن نے تحریک کے مرکزی رہنما منظور پشتین سمیت دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا اور اپنے مطالبات کی حمایت کے لیے لوگوں کو آواز بلند کرنے کا کہا۔

پی ٹی ایم کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ سوات کی طرف آنے والے راستوں پر کڑی چیکنگ کے "نام پر" ان کے سیکڑوں حامیوں کو کئی گھنٹوں تک سکیورٹی فورسز نے روکے رکھا لیکن اس کے باوجود جلسے میں ہزاروں افراد شرکت کے لیے پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں۔

مقررین نے ملک میں جبری گمشدگیوں، پشتونوں کے ماوائے عدالت قتل کے خلاف موثر اور ٹھوس کارروائیوں کے مطالبات کو دہرایا۔

بتایا جاتا ہے کہ سوات آنے والوں راستوں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور دیر، بنیر، شانگلہ، اور مالاکنڈ کی طرف سے سوات آنے والوں مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں گاڑیوں کی تفصیلی تلاشی لیتے رہے جس کے باعث گاڑیوں کی یہاں لمبی قطاریں لگ گئیں۔

جلسے کے مقام پر انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس میں عارضی خلل کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔

جلسے میں شرکت کے لیے جبری گمشدہ افراد کے اہل خانہ بھی یہاں پہنچے تھے جن میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔

پشتون تحفظ تحریک کے ایک رہنما عبداللہ ننگیال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رکاوٹیں اور تحریک کے خلاف پروپیگنڈہ کامیاب نہیں ہو گا اور لوگ اب اپنے حقوق کے لیے خوف کو ترک کر کے آواز بلند کر رہے ہیں۔

قبل ازیں درگئی کے مقام پر قائم سکیورٹی چیک پوسٹ پر انتہائی سخت چیکنگ کے باعث یہاں گاڑیوں کی طویل قطاریں دیکھنے میں آئیں اور یہاں پھنسے درجنوں نوجوانوں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔

انتظامیہ کی طرف سے اس بارے میں تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

ادھر کالام سے جلسے میں شرکت کے لیے آنے والے افراد کی بحرین کے مقام پر پاکستان تحفظ موومنٹ نامی تنظیم کے ان کارکنوں سے تلخ کلامی بھی ہوئی جو انھیں سوات جانے سے روک رہے تھے۔

پی ٹی ایم نے حالیہ مہینوں میں ملک کے مختلف حصوں میں جلسے کیے جس میں وہ پشتونوں کے ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور قبائلی علاقوں میں سکیورٹی اہلکاروں کے مبینہ ہتک آمیز رویے کے خلاف آواز بلند کرتی آئی ہے۔

اس تحریک کے جلسوں اور سرگرمیوں کو پاکستانی ذرائع ابلاغ میں کوریج نہیں دی گئی۔

XS
SM
MD
LG