رسائی کے لنکس

امریکہ: امیگریشن کا نیا قانون پبلک چارج لاء عدالت میں چیلنج


امریکی اہل کار میکسیکو کی سرحد سے داخل ہونے والے تاریکین وطن کو روک رہے ہیں۔امریکہ میں کئی ملین غیر قانونی تارکین وطن موجود ہیں۔
امریکی اہل کار میکسیکو کی سرحد سے داخل ہونے والے تاریکین وطن کو روک رہے ہیں۔امریکہ میں کئی ملین غیر قانونی تارکین وطن موجود ہیں۔

امریکہ بھر میں امیگریشن کا پبلک چارج نامی قانون آئندہ ماہ سے لاگو ہو جائے گا، جس کے تحت ان مفلس تارکین وطن کو گرین کارڈ کے اجرا سے انکار کیا جا سکے گا، جو اپنی غربت کے باعث خوراک، رہائش اور علاج معالجے کی مفت سرکاری مراعات حاصل کر رہے تھے۔

قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ کوئی نیا قانون نہیں ہے بلکہ پرانے قانون کو بعض تبدیلیوں کے بعد ازسرنو نافذ کیا گیا ہے۔ تاہم 13ریاستوں نے واشنگٹن کے اٹارنی جنرل رابرٹ فرگوسن کی قیادت میں اس قانون کو عدالتوں میں چیلنج کر دیا ہے۔

ریاستوں کی جانب سے عدالتی چارہ جوئی میں امریکہ کے محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی کو فریق بنایا گیا۔ بدھ کو ریاستوں کی جانب سے قانونی چارہ جوئی میں پہل ریاست ورجینیا نے کی جس کے اٹارنی جنرل مارک ہیرنگ نے عدالت میں قانونی دعوی دائر کیا۔

پبلک چارج لاء کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے والی ریاستوں میں کولوریڈو، ڈیلویئر، ایلی نوائے، میری لینڈ، میساچوسٹس، میشی گن، نوادا، نیوجرسی، نیومیکسیکو اور روڈ آئس لینڈ شامل ہیں۔

ماہر قانون بیرسٹر سلیم رضوی کہتے ہیں کہ ’’نئے پبلک چارج لاء کو انسانی حقوق اور تارکین وطن کے گروپوں کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ ایک پرانا قانون ہے جو ایک صدی سے قانون کی کتابوں میں موجود ہے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب چینی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے 'چائنز ایکلوسیو ایکٹ' بنایا گیا تھا۔ اس قانون میں بعض تبدیلیاں کر کے اسے مزید محددود کر دیا گیا ہے، جس کے تحت استحقاق رکھنے والوں کو کم آمدنی کی بنیاد پر گرین کارڈ دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے

بیرسٹر سلیم رضوی کہتے ہیں کہ یہ قانون امتیازی ہے۔ جس کے تحت درخواست دہندگان دو طبقوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں، ایک دولت مند اور دوسرا غریب۔ اس قانون کے تحت غریبوں کو اب امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا حق حاصل نہیں ہو گا۔

سلیم رضوی کہتے ہیں کہ اس قانون کے تحت امریکی شہری سے شادی کے باوجود گرین کارڈ کا حصول ممکن نہیں رہے گا کیونکہ اگر کوئی شخص گرین کارڈ حاصل کرنے کے تمام قانونی تقاضے پورے کرتا ہو، لیکن کسی مرحلے پر اس نے میڈی کیڈ، فوڈ اسٹیمپ یا ہاؤسنگ واؤچر سے استفادہ کیا ہو تو گرین کارڈ کے لیے اس کی درخواست کو مسترد کیا جا سکے گا۔

بیرسٹر سلیم رضوی کہتے ہیں کہ ’ ملک میں ابتداء میں ان لوگوں کے خلاف مہم جاری تھی جن کے پاس امریکہ میں رہنے کے لیے قانونی دستاویزات نہیں تھیں، اور اب نئے قانون کی مدد سے قانونی دستاویزات رکھنے والوں کو بھی ملک بدر کیا جا سکے گا‘۔

سلیم رضوی کہتے ہیں کہ پبلک چارج لاء پورے امریکہ میں ان دنوں زیر بحث ہے اور اس مسئلے پر ٹرمپ انتظامیہ کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ ان کے بقول یہ امتیازی قانون ہے جو امریکی اقدار سے متصادم اور غیر انسانی اقدام ہے ۔

تاہم سلیم رضوی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ملک میں قانونی چارہ جوئی کے دروازے کھلے ہیں جس کا فائدہ اٹھا کر کئی ریاستوں اور کئی کاونٹیز نے اس قانون کو عدالتوں میں چیلنج کر دیا ہے۔

نیویارک میں اٹارنی جنرل کا دفتر قانونی چارہ جوئی کی تیاری کر رہا ہے۔ کیلی فورنیا میں بھی اسے چیلنج کیا گیا ہے،

نیویارک میں امیگریشن کے اٹارنی خالد اعظم کہتے ہیں کہ پبلک چارج لاء عشروں سے موجود ہے لیکن ماضی میں اس قانون پر عملدرآمد کے لیے زیادہ زور نہیں دیا گیا، لیکن نئی انتظامیہ اس پر عمل کرنا چاہتی ہے۔

اٹارنی خالد اعظم کہتے ہیں کہ قانونی طریقے سے امیگریشن حاصل کرنے والوں کو کسی کی جانب سے مدد کرنے کے وعدے پر مبنی دستاویز کی ضرورت ہوتی ہے جس کے تحت گرین کارڈ حاصل کرنے والا غریبوں کے لئے مختص سرکاری وسائل استعمال نہیں کر سکتا۔ دستاویز دینے والا اس کی مدد کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ میڈی کیڈ یا فوڈ اسٹیمپ حاصل کر لیتے ہیں جو قانونی اور اخلاقی دونوں طرح سے غلط ہے۔

ماہر قانون سلیم ضوی کے مطابق اس قانون کا اطلاق 15 اکتوبر سے ہو گا۔ لیکن توقع یہی کی جا رہی ہے کئی عدالتوں سے اس قانون کے خلاف حکم امتناع جاری ہو جائے گا جس کے بعد قانون پر عملدرآمد رک جائے گا۔

XS
SM
MD
LG