رسائی کے لنکس

العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی سزا معطل، کیا پنجاب حکومت کے پاس یہ اختیار ہے؟


پنجاب کی نگراں کابینہ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی سزا معطل کرنے کی درخواست متفقہ طور پر منظور کر لی ہے۔

منگل کو صوبے کی نگراں کابینہ نے سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف کی درخواست پر آن لائن اجلاس میں غور کیا۔

نواز شریف کی جانب سے ان کے وکلا امجد پرویز ایڈووکیٹ اور اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیے۔ دوران سماعت نگراں کابینہ کے ہمراہ چیف سیکریٹری پنجاب بھی موجود تھے۔

پنجاب کے نگراں وزیرِ اطلاعات عامر میر نے سزا معطل کرنے کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کریمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 401 کے تحت نواز شریف کی سزا معطل کی گئی۔

اُن کے بقول مذکورہ سیکشن کے مطابق حکومت کسی بھی مجرم کی سزا معطل کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو 24دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں 10سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے 31اکتوبر 2019 کو میڈیکل گراؤنڈ پر نواز شریف کی ضمانت منظور کی تھی۔

قبل ازیں چھ جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 19ستمبر 2018کو سزائیں معطل کر کے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو رہا کردیا تھا۔

بعض قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب کی نگراں حکومت اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے نواز شریف کو ریلیف دے رہی ہے۔

سابق وفاقی وزیرِ قانون ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں کہ پنجاب کی نگراں حکومت نواز شریف کو غیر ضروری تعاون فراہم کر رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ آئین اور قانون کے مطابق پنجاب حکومت کسی بھی وفاقی حکومت کے فیصلے کو تبدیل نہیں کر سکتی۔

خالد رانجھا کا مزید کہنا تھا کہ قانون کے مطابق اِس سزا کو وزیراعظم یا صدر معطل کر سکتے ہیں۔

قانونی ماہر اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ برہان معظم ملک سمجھتے ہیں کہ قانون میں حکومتِ پنجاب کے پاس ایسا کرنے کا اختیار تو موجود ہے۔ لیکن ایسا صرف منتخب حکومت ہی کر سکتی ہے۔

برہان معظم ملک کہتے ہیں کہ ماضی میں نگراں حکومتوں کی جانب سے ایسا کوئی اقدام سامنے نہیں آیا۔

تجریہ کار اور کالم نویس افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ اگر یہ کام قواعد کے مطابق ہوا ہے تو ٹھیک ہے بصورتِ دیگر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر قانون کی کتابوں میں ایسا کوئی اختیار کسی بھی حکومت کے پاس ہے اور اُسے اُس اختیار کا استعمال کرنا غیر ضروری نہیں ہے۔ قوانین اِسی لیے بنائے جاتے ہیں کہ جب اُن کی ضرورت پڑے تو اُن کو استعمال کیا جائے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف ماضی میں مختلف کیسوں میں عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں اور اَب بھی وہ عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔

خیال رہے کہ نواز شریف تین دن قبل21 اکتوبر کو چار برس کی خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے پاکستان پہنچے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔

منگل کو سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے توشہ خانہ کیس میں احتساب عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیا جس کے بعد عدالت نے اُن کے دائمی وارنٹ منسوخ کر دیے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے حاضری کے بعد نواز شریف کو جانے کی اجازت دی۔عدالت نے ان کے سرینڈر کے بعد توشہ خانہ کیس میں ان کو اشتہاری قرار دینے کا اسٹیٹس ختم کرکے کیس کی سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر دی۔

XS
SM
MD
LG