رسائی کے لنکس

بیوی کو یونیورسٹی سے لینے کے لیے آنے والے نوجوان پر تشدد


پنجاب یونیورسٹی، فائل فوٹو
پنجاب یونیورسٹی، فائل فوٹو

پنجاب یونیورسٹی میں وقتاً فوقتا ًطالب علموں کے درمیان لڑائی جھگڑے کے واقعات سُننے کو ملتے رہتے ہیں لیکن اب منفرد واقعہ سامنے آیا ہے اور وہ ہے یونیورسٹی میں اپنی اہلیہ کو لینے کے لیے آنے والے نوجوان پر تشدد کا۔

ہوا یہ کہ دونوں میاں بیوی کو ساتھ بیٹھے دیکھ سیکورٹی گارڈز نے معاملہ اٹھایا اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ وہاں موجود طالب علموں کے مطابق بعد میں اسلامی جمیعت کے کارکنوں نے معاملے کو بڑھاوا دیا۔

بغیر تصدیق مار پیٹ کرنے پر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے وائس چانسلر سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

پنجاب یونیورسٹی میں گزشہ روز ڈرامائی صورت حال تب پیدا ہوئی، جب اویس رند نامی نوجوان اپنی اہلیہ کے ساتھ شعبہ تاریخ میں بیٹھا تھا۔ بغیر وردی میں ایک سیکورٹی گارڈ نے ان سے پوچھ گچھ شروع کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مار پیٹ شروع ہو گئی۔ مبینہ طور پر بعد میں آنے والے اسلامی جمیعت طلبا کے کارکنوں نے بھی لڑکے کی پٹائی کی۔

پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے واقعے کا نوٹس لیا اور وائس چانسلر کے حکم پر رجسٹرار خالد خان نے تین رکنی کمیٹی بنائی۔ جس کی رپورٹ آنے کے بعد شاہد وٹو اور عثمان نامی دو طالب علموں اور سیکورٹی گارڈ جاوید کے خلاف کارروائی کی گئی۔

رجسٹرار خالد خان کا کہنا ہے کہ جو طلبا اور گارڈ اس میں ملوث ہیں، انہیں شوکاز نوٹس جاری کر دئیے گئے ہیں اور کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے گی، اُس کے مطابق سزا دی جائے گی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے متاثرہ نوجوان اویس رند نے کہا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی کے اقدام سے مطمئن ہیں اور چاہتے ہیں کہ آئندہ کسی کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش نہ آئے۔

اسلامی جمیعت طلبہ کے ناظم حافظ ادریس کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کے کسی رکن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے، اس میں جمیعت کا کوئی کارکن موجود نہیں۔ بلکہ جمیعت کے ایک شخص نے تو وہاں پہنچ کر معاملہ ختم کرایا۔

بظاہر کوئی بھی اس معاملے میں اسلامی جمیعت کے ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کر رہا۔ لیکن جامعہ پنجاب کے بیشتر طالب علموں کا کہنا ہے کہ ایسا کام مذکورہ تنظیم کے علاوہ کون کرے گا۔

سوشل میڈیا صارفین بھی ایک خاص طلبہ تنظیم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور سرکاری درسگاہ پر دہائیوں سے ان کے قبضے پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG