رسائی کے لنکس

چین سے تعلقات کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں: روسی صدر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صدر شی سے ملاقات سے قبل روسی صدر نے چینی وزیراعظم لی کیچیانگ سے بھی ملاقات کی جس میں چین کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کے تمام پہلوؤں پر مشتمل تعلقات کی ضرورت پر زور دیا۔

روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے بیجنگ میں ملکی قیادت سے ملاقات میں چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے پر زور دیا ہے۔

ہفتہ کو بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب شی جنپنگ سے ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملک کے عوام "ہمارے تعلقات میں فروغ اور مستحکم کرنے" کی توانا خواہش رکھتے ہیں۔

روس اور چین کے درمیان عدم اعتماد اور تجارتی شعبوں میں روابط میں کمی بھی دیکھنے میں آ چکی ہے اور اس تناظر میں صدر پوٹن کے اس دورے کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔

صدر شی سے ملاقات سے قبل روسی صدر نے چینی وزیراعظم لی کیچیانگ سے بھی ملاقات کی جس میں چین کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کے تمام پہلوؤں پر مشتمل تعلقات کی ضرورت پر زور دیا۔

روسی صدر نے لی کیچیانگ کو بتایا کہ دوطرفہ تعلقات باہمی اقتصادی مفادات پر مشتمل ہیں۔

"ہمارے تعلقات اسٹریٹیجک شراکت داری سمیت تمام شعبوں میں تعاون کی صلاحیت رکھتے ہیں۔"

انھوں نے عالمی سطح پر دونوں ملکوں کے تعاون بشمول تعلیم ثقافت اور دیگر جہتوں میں اشتراک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "کسی نہ کسی طرح یہ سب اقتصادیات پر مبنی ہے۔"

باور کیا جاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے صدور کے قریبی ذاتی تعلقات اور امریکہ کے عالمی سطح پر اثرورسوخ کو کم کرنے کی مشترکہ خواہش چین اور روس کے تعاون میں فروغ کی بنیاد ہیں۔

مارچ 2014ء میں یوکرین کے خطے کرائمیا کو روس میں شامل کیے جانے پر امریکہ اور یورپی یونین نے ماسکو پر مختلف پابندیاں عائد کر دی تھیں جس سے بین الاقوامی منڈیوں تک اس کی رسائی محدود ہوئی جب کہ دنیا کے سات بڑے صنعتی ممالک کے اتحاد سے بھی اسے علیحدہ کر دیا گیا۔

اس تناظر میں چین کی طرف سے روس میں کی جانے والی بڑی سرمایہ کاری اور خاص طور پر روس سے توانائی کی درآمد کے منصوبے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

چین نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ماسکو سے کازان کے درمیان تیز تر ریلوے رابطہ استوار کرنے کے لیے بھی روس کو اربوں ڈالر قرض دے گا۔

مئی 2014ء میں صدر پوٹن نے بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں تیس سال تک قدرتی گیس کی فراہمی کا چارسو ارب ڈالر کا معاہدہ بھی شامل تھا۔

مبصرین اس دورے کو صدر پوٹن کی طرف سے اس بات کا اشارہ دینے کے مترادف قرار دیتے ہیں کہ روس کے پاس اب بھی قابل عمل ذرائع موجود ہیں۔

XS
SM
MD
LG