رسائی کے لنکس

منجمد افغان اثاثوں کا اجرا اور طالبان حکومت تسلیم کرنے کی راہ واضح نہیں: قطری وزیر خارجہ


قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبد الرحمٰن الثانی۔ 11 اکتوبر 2021ء۔ فائل فوٹو
قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبد الرحمٰن الثانی۔ 11 اکتوبر 2021ء۔ فائل فوٹو

قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبد الرحمٰن الثانی نے بدھ کے روز کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا معاملہ ترجیح نہیں ہے، لیکن، عالمی برادری متفق ہے کہ لڑائی کے نتیجے میں تباہ حال ملک کی مدد کی جائے تاکہ افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی اور معاشی مسائل سے نمٹا جا سکے۔

قطر کے وزیر خارجہ نے یہ بات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقدہ بین الاقوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں معنوی طور پر طالبان کی حکومت ہے ۔ ان حالات میں ملک کو تنہا چھوڑ دینا بڑی غلطی ہو گی، کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ افغان عوام کو اس بات کی سزا دی جائے، جس کے ذمہ دار وہ نہیں ہیں۔

سیکیورٹی کے عالمی فورم سے خطاب کرتے ہوئے عبد الرحمن الثانی نے کہا کہ ''ہم طالبان کی جانب سے ان اقدامات کا انتظار نہیں کر سکتے، جن پر ردعمل ظاہر کیا جا سکے''۔

انھوں نے مزید کہا کہ ''میرے خیال میں بین الاقوامی برادری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ اقدامات کئے جا رہے ہیں اور صورت حال سے نمٹنے کے لیے واضح روڈ میپ دیا جائے''۔

منگل کے روز دنیا کی 20 بڑی معیشتوں سے تعلق رکھنے والے حکومتی سربراہان اور وزرائے خارجہ نے اٹلی کی جانب سے ویڈیو اجلاس میں شرکت کے دوران اس بات پر اتفاق کیا کہ افغانستان کو مزید نقد رقوم فراہم کرنے کے طریقہ کار پر سوچ بچار کی جائے، تاکہ انسانی ہمدردی کی نوعیت کو لاحق بحران کو حل کیا جا سکے۔

اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر فوری اقدام نہ کیا گیا تو جنگ کے نتیجے میں تباہ حال ملک کی معیشت نہ حل ہونے والے انسانی بحران کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔

بدھ کو قطر کے وزیر خارجہ عبد الرحمن الثانی نے کہا کہ ''ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کوئی راستہ نکالیں، اس ملک کو بے سہارا نہ چھوڑیں اور میرے خیال میں سب ہی اس سوچ کے حامل ہیں کہ اس مرحلے پر حکومت تسلیم کیے بغیر ہم آگے بڑھیں، جس کے بارے میں بعد میں سوچا جا سکتا ہے''۔

دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر قائم ہے اور حکومتِ قطر امریکہ اور مغربی ملکوں اور اس اسلام پسند گروپ کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔

الثانی نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ کابل کے نئےحکمرانوں کو شدید معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے اور کوئی واضح صورت نظر نہیں آتی کہ افغان حکومت کے تقریباً 10 ارب ڈالر کی منجمد رقوم کس طرح سے جاری ہو سکتی ہیں، جن میں سے زیادہ تر امریکی فیڈرل ریزرو میں جمع ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان رقوم کی دستیابی کے بغیر طالبان اساتذہ، ڈاکٹروں اور ملازمین کے علاوہ دیگر سماجی شعبہ جات کو تنخواہ نہیں دے پائیں گے۔

قطری عہدے دار کے ان کلمات سے قبل منگل کو طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے افغان اثاثوں کو جاری کرنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا تھا۔

منگل کو دوحہ میں امریکی اور یورپی ایلچیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران متقی نے خبردار کیا کہ پابندیوں کے ذریعے ان کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے نتیجے میں نہ صرف ان کے ملک کی سیکیورٹی بلکہ عمومی طور پردنیا کے لیے خطرہ پیدا ہو گا۔

XS
SM
MD
LG