رسائی کے لنکس

کردار کشی ہو رہی ہے، دباؤ میں نہیں آؤں گا: جسٹس فائز عیسیٰ


جسٹس قاضی فائر عیسیٰ، فائل فوٹو
جسٹس قاضی فائر عیسیٰ، فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے جانے کے معاملہ پر پاکستان کے صدر عارف علوی کو ایک اور خط لکھا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف حکومت کی طرف سے میڈیا پر کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔

پانچ صفحات پر مشتمل یہ دوسرا خط ہے جو صدر عارف علوی کو ایک ہفتہ کے دوران لکھا گیا ہے۔ اس سے قبل جسٹس فائز عیسیٰ نے صدر کو اپنے خلاف دائر ریفرنس کی بابت جاننے کے لیے خط لکھا تھا کہ انہیں میڈیا کے ذریعے اطلاعات مل رہی ہیں کہ ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے، لیکن انہیں اس ریفرنس کی کاپی نہیں بھجوائی گئی۔

پیر کے روز لکھے جانے والے خط میں قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ‏جناب صدر اس سے پہلے کہ کونسل مجھے نوٹس بھیجتی، میرا جواب آتا، ‏میرے خلاف میڈیا پر کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ وزیر قانون، وزارت اطلاعات کے سینئر ارکان اور مختلف حکومتی ارکان ریفرنس کے مخصوص حصے میڈیا میں پھیلا رہے ہیں۔

فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومتی ارکان میڈیا میں ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں۔ کیا یہ مناسب رویہ ہے اور کیا یہ آئین سے مطابقت رکھتا ہے؟ ‏حکومتی ارکان اسے میرے خلاف احتساب کا شکنجہ قرار دے رہے ہیں۔ ‏کیا شکایت کے مخصوص حصے میڈیا میں لیک کرنا اٹھائے گئے حلف کی خلاف ورزی نہیں ہے؟

جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ جو ریفرنس میرے خلاف آپ نے دائر کیا، اس کی کاپی فراہم کرنے کا کہا تھا۔ لیکن نہ تو آپ نے اور نہ ہی وزیراعظم نے مجھے ریفرنس کی کاپی فراہم کی۔ کونسل نے مجھے ابھی نوٹس بھی جاری نہیں کیا، لیکن میرے خلاف ایک تحریک شروع کر دی گئی ہے۔ اس تحریک کا مقصد سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی پر اثر انداز ہونا تھا۔ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے ہی خبریں لیک کر دی گئیں۔ ان خبروں سے مقاصد حاصل نہ ہونے کے بعد اب حکومتی عہدیداروں نے جائیداد کی تفصیلات بھی لیک کر دیں۔ کیا اس سب کے پیچھے کوئی خفیہ مقصد نظر نہیں آتا؟

خط میں جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ جناب صدر آپ نے، آپ کے وزیراعظم، وزراء اور اعلی عدلیہ کے ججز نے حلف اٹھایا تھا اور اس حلف میں کہا جاتا ہے کہ میں اپنے ذاتی معاملات کو سرکاری فیصلوں پر حاوی نہیں ہونے دوں گا۔ میری معلومات کے مطابق ریفرنس میں لندن کی تین جائیدادوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان جائیدادوں سے کیسے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ میں نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے کبھی بھی لندن جائیدادوں کی ملکیت چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ میری اہلیہ اور بچے میرے زیر کفالت نہیں ہیں۔ جن جائیدادوں کا ذکر کیا گیا وہاں میرے بچے اپنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ میرے بچے لندن میں مقیم ہیں اور وہیں کام کرتے ہیں۔ میں قانونی طور پر لندن جائیداد ظاہر کرنے کا پابند نہیں تھا۔ میری اہلیہ عبدالحق کھوسو کی بیٹی ہیں اور اسپین کی شہری ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میری اہلیہ اور بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خود کفیل ہیں اور یہ جائیدادیں میری بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر مجھ پر کوئی الزام ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھے نوٹس ملنا چاہیے تھا۔ لیکن میڈیا پر حکومتی ارکان میری کردار کشی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد بلوچستان کے پہلے بیرسٹر تھے، جب کہ میری بیٹی بلوچستان کی پہلی خاتون بیرسٹر ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت کی طرف سے کوئی بھی ٹیکس کا نوٹس نہ ملنے اور محض الزامات عائد کرنے پر کہا کہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بننے سے پہلے میں ایک لیڈنگ لاء فرم کا پارٹنر تھا۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ جو لوگ سب سے زیادہ ٹیکس دیتے رہے ہیں ان کو نشانہ بنایا جائے۔ جو لوگ ٹیکس بہت کم دیتے ہیں ان سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔

انہوں نے صدر عارف علوی کو کہا کہ وزیراعظم سے پوچھیں، کیا انہوں نے اپنی بیویوں اور بچوں کی جائیدادیں اور اثاثے ظاہر کیے ہیں۔ جب وزیراعظم نے آپ کو ریفرنس دائر کرنے کا کہا تو بطور صدر آپ کا فرض بنتا تھا کہ آپ ان سے بھی یہ سوال پوچھتے۔ حکومت نے یہ جو کچھ کیا ہے منصفانہ ٹرائل کے حق کے خلاف ہے۔اگر حکومتی اراکین سمجھتے ہیں کہ مجھ پر دباؤ ڈال کر حلف کی خلاف ورزی پر مجبور کریں گے تو یہ لوگ یہ خیال ذہنوں سے نکال دیں۔ مجھ پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ میں بلا خوف اور قانون کے مطابق کام کروں گا۔

میرے والد قاضی محمد عیسی نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر جدوجہد کی اور آزادی حاصل کی۔ میں قائداعظم کے نظریات کو کبھی نقصان پہنچنے نہیں دوں گا۔ میرے خلاف جو ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ان کا مقصد آزاد عدلیہ کو دباؤ میں لانا تھا۔ جناب صدر آپ اطمینان رکھیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ آئین کو تحفظ دوں گا اور اس کا دفاع کروں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھ پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ میں اپنے اثاثہ جات ظاہر کروں۔ کیونکہ میرے کردار پر شک کیا گیا اس لیے رضا کارانہ طور پر ظاہر کر رہا ہوں۔ جب سے قانون کا پیشہ اختیار کیا، تب سے ٹیکس ادا کر رہا ہوں۔ مجھے امید ہے جن لوگوں نے ریفرنس دائر کیا ہے انہوں نے مکمل چھان بین کی ہو گی۔ جب انہیں کچھ بھی نہیں ملا تو جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں۔

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس دائر کیے ہیں جس پر حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

سپریم کورٹ بار نے 14 جون کو کونسل کی پہلی سماعت کے موقع پر ملک بھر سے وکلا کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دی ہے اور حکومت سے ریفرنس واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب حکومت کی ترجمان مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ہمیں یکساں احتساب کے عمل کو آگے لے کر چلنا ہے۔ عوام اور ادارے توقع کرتے ہیں کہ اسٹیٹس کو کا حصہ نہ بنیں۔ قوم نے ذمہ داری ڈالی ہے، آئین و قانون کے تحت کام کرنا ہے۔ عدلیہ کی شکایت کو عدلیہ ہی دیکھنے جا رہی ہے۔ اپوزیشن بلاوجہ واویلا اور شورکر رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG