رسائی کے لنکس

شاہد مسعود کے الزامات کے بعد صحافت کے کردار پر بحث


شاہد مسعود کی طرف سے تاحال ٹھوس شواہد فراہم نہ کیے جانے پر نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی خبر کی صداقت اور معیار پر زور و شور سے بحث جاری ہے

پاکستان کے ٹی وی چینلز پر اہم اور حساس واقعات کی کوریج سمیت "سب سے پہلے خبر" دینے کی دوڑ میں بعض اوقات غلط یا "کچے پکے حقائق" پر مبنی خبریں نشر کرنے کی وجہ سے اکثر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔

لیکن ضلع قصور میں رواں ماہ جنسی زیادتی کے بعد قتل ہونے والی کم سن بچی زینب کے معاملے پر ایک سینئر اینکر پرسن کی طرف سے ایسے الزامات کے بعد جنہیں وہ تاحال ثابت نہیں کرسکے، ایک بار پھر ذمہ دارانہ صحافت پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

زینب کے مبینہ قاتل عمران علی کی گرفتاری کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملزم ایک ایسے بین الاقوامی گروہ کا حصہ ہے جو بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز انٹرنیٹ پر جاری کرنے میں ملوث ہے اور اس شخص کے غیر ملکی کرنسی کے کم از کم 37 بینک اکاؤنٹس ہیں۔

اینکر پرسن نے اپنے اسی پروگرام میں چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا اس مقدمے میں رقوم کی غیر قانونی منتقلی کا معاملہ بھی پوشیدہ ہو سکتا ہے۔

لیکن جب عدالتِ عظمیٰ نے شاہد مسعود کو طلب کیا تو وہ اپنے الزامات سے متعلق کوئی واضح ثبوت فراہم نہ کر سکے۔ پاکستان کا مرکزی بینک یہ واضح کرچکا ہے کہ تحقیق سے یہ پتا چلا کہ ملزم عمران علی کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے۔ تاہم مذکورہ اینکر پرسن اب بھی اپنے الزامات پر قائم ہیں۔

شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات کے لیے عدالت عظمیٰ نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے انھیں اس میں اپنے دعوے کے شواہد پیش کرنے کا کہا ہے۔

شاہد مسعود کی طرف سے تاحال ٹھوس شواہد فراہم نہ کیے جانے پر نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی خبر کی صداقت اور معیار پر زور و شور سے بحث جاری ہے اور سینئر صحافیوں سمیت غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اب ضروری ہے کہ میڈیا اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اس بارے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھائے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے ٹی وی چینلز آئے ہیں ایک ایسا رجحان دیکھنے میں آیا ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی۔

"یہ صرف ایک کیس کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک رجحان ہے۔ یہ ایک پیٹرن رہا ہے۔ جب سے ٹیلی ویژن چینل آئے ہیں اور یہ پیٹرن بڑھتا گیا اور اس کو چیک نہیں کیا گیا اور روکا نہیں گیا اور اسی وجہ سے پروگرام بھی اور خبریں بھی بغیر تصدیق کیے چلا دی جاتی ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ ضابطۂ اخلاق موجود ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی پاسداری نہیں کی جاتی اور جب بھی اس طرح کے سوالات اٹھتے ہیں تو کچھ وقت کے لیے ہی عمل ہوتا ہ۔ے لیکن ان کے بقول شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات سے میڈیا کے اپنے اندر تبدیلی لانے کی امید کی جاسکتی ہے۔

"امید ہے کہ اگر اب ادراک کیا گیا تو کیونکہ یہ معاملہ اب آگے بڑھے گا۔۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے نتیجے میں جو بھی بات سامنے آئے گی چاہے وہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے حق میں آتی ہے یا ان کے خلاف، ہر دو صورتوں میں میڈیا کے لیے ایک گائیڈ لائن ضرور ہوگی۔۔ اگر انھوں نے ثبوت فراہم کیے تو یہ گائیڈ لائن ہوگی کہ کوئی بھی صحافی تحقیقات کرنے کے بعد کوئی چیز دیتا ہے اور اگر وہ ثبوت نہیں دیتے تو یہ ہوگا کہ آپ کتنے ہی بڑے اینکر ہوں، کتنے ہی بڑے صحافی ہوں، لیکن اگر آپ کے پاس مکمل حقائق نہیں ہیں تو بہتر یہ ہوتا ہے کہ آپ وہ خبر نہ دیں۔"

مؤقر غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے چیئرمین اور ابلاغیات کے ماہر ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ وہ ایک عرصے سے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ نیوز چینلز میں ادارتی جانچ پڑتال کا مؤثر نظام وضع کیا جانا ضروری ہے لیکن ان کے بقول اس طرف توجہ نہ دیے جانے سے ایسی شکایات اور معاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔

"میں بہت عرصے سے کہے جا رہا ہوں کہ میڈیا میں گیٹ کیپنگ کی ضرورت ہے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی سینئر آدمی جو چینل میں ہو وہ خبروں کو دیکھے۔۔۔ بعض لوگوں کو ناموری کا شوق ہوتا ہے اور اس میں وہ ایسی حرکتیں بھی کر جاتے ہیں جو میرا خیال ہے صحافتی اصولوں کے خلاف ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں بھی میں سمجھتا ہوں کہ انھوں (شاہد مسعود) نے جو رویہ اپنایا وہ صحافتی اخلاقیات کے خلاف ہے۔"

مظہر عباس بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اخبارات کی طرح ٹی وی چینلز کو بھی چاہیے کہ اگر کوئی خبر یا تبصرہ غلط ہو تو اس کی تردید یا معذرت ضروری کی جانی چاہیے۔

XS
SM
MD
LG