واشنگٹن —
پیر کے روز صوبہٴپنجاب کے شہر، چناب نگر، ربوہ میں نامعلوم افراد نے گولیاں چلا کر رضاکارانہ طبی خدمات دینے والے نامور ڈاکٹر مہدی علی قمر کو ہلاک کر دیا۔
وہ امریکہ کی اوہائیو یونیورسٹی کے امراض قلب کے ایک ماہر اور نائب پروفیسر تھے اور کچھ ہی عرصہ قبل رضاکارانہ خدمات انجام دینے کے لیے پاکستان گئے ہوئے تھے۔
یہ بات پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا رپورٹس میں سرکاری اہل کاروں اور پولیس کے حوالے سے بتائی گئی ہے۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر علی مہدی اپنے بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کےبعد ربوہ میں احمدیہ قبرستان سے اپنی بیوی اور کم سن بچے کے ہمراہ باہر نکل رہے تھے کہ دروازے پر اُن پر یہ قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔
واشنگٹن میں، ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے، امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم (اے پی پی این اے) کے صدر، ڈاکٹر آصف رحمٰن نے ، اپنی طرف سے اور ڈاکٹروں کی تنظیم کی طرف سے، ڈاکٹر مہدی علی قمر کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
بقول اُن کے، اِس قسم کی وحشیانہ اور دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی نیکی کا کام نہ کیا جائے، جو ہمارے غریب معاشرے کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ وہ ربوہ کے مشہور، ’طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ‘ میں طبی خدمات فراہم کر رہے تھے۔
سوشل میڈیا کی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اُن کے لواحقین میں، بیگم اور پانچ سال کے کم سن بچے کے علاوہ، اُن کا ایک 17 برس کا بیٹا بھی شامل ہے۔
امریکہ کی احمدیہ مسلم کمیونٹی کے ترجمان، قاسم رشید نے قتل کے اِس واقعے پر دلی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ بقول اُن کے، ڈاکٹر مہدی علی قمر کا جرم یہ تھا کہ وہ غریبوں کی مفت طبی امداد کر رہے تھے، جس کے لیے اُن کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ چار برسوں میں احمدیہ برادری کے تقریباً 110 افراد ہلاک کیے جاچکے۔ بقول اُن کے، پچھلے چند عشروں کے دوران اس برادری کےاب تک 300 کے قریب افراد قتل ہو چکے ہیں۔
قاسم رشید نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’احمدیہ برادری کے ساتھ یہ انسانیت سوز سلسلہ تاحال جاری ہے‘۔
وہ امریکہ کی اوہائیو یونیورسٹی کے امراض قلب کے ایک ماہر اور نائب پروفیسر تھے اور کچھ ہی عرصہ قبل رضاکارانہ خدمات انجام دینے کے لیے پاکستان گئے ہوئے تھے۔
یہ بات پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا رپورٹس میں سرکاری اہل کاروں اور پولیس کے حوالے سے بتائی گئی ہے۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر علی مہدی اپنے بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کےبعد ربوہ میں احمدیہ قبرستان سے اپنی بیوی اور کم سن بچے کے ہمراہ باہر نکل رہے تھے کہ دروازے پر اُن پر یہ قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔
واشنگٹن میں، ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے، امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم (اے پی پی این اے) کے صدر، ڈاکٹر آصف رحمٰن نے ، اپنی طرف سے اور ڈاکٹروں کی تنظیم کی طرف سے، ڈاکٹر مہدی علی قمر کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
بقول اُن کے، اِس قسم کی وحشیانہ اور دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی نیکی کا کام نہ کیا جائے، جو ہمارے غریب معاشرے کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ وہ ربوہ کے مشہور، ’طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ‘ میں طبی خدمات فراہم کر رہے تھے۔
سوشل میڈیا کی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اُن کے لواحقین میں، بیگم اور پانچ سال کے کم سن بچے کے علاوہ، اُن کا ایک 17 برس کا بیٹا بھی شامل ہے۔
امریکہ کی احمدیہ مسلم کمیونٹی کے ترجمان، قاسم رشید نے قتل کے اِس واقعے پر دلی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ بقول اُن کے، ڈاکٹر مہدی علی قمر کا جرم یہ تھا کہ وہ غریبوں کی مفت طبی امداد کر رہے تھے، جس کے لیے اُن کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ چار برسوں میں احمدیہ برادری کے تقریباً 110 افراد ہلاک کیے جاچکے۔ بقول اُن کے، پچھلے چند عشروں کے دوران اس برادری کےاب تک 300 کے قریب افراد قتل ہو چکے ہیں۔
قاسم رشید نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’احمدیہ برادری کے ساتھ یہ انسانیت سوز سلسلہ تاحال جاری ہے‘۔