رسائی کے لنکس

بھارت: دہشت گردی کا الزام، مسلم تنظیم 'پاپولر فرنٹ' کے درجنوں کارکن گرفتار


 پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کے مطالبات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کے مطالبات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

بھارت میں مسلمانوں کی تنظیم 'پاپولر فرنٹ آف انڈیا' (پی ایف آئی) پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرتے ہوئے 100 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے ادارے 'انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی جانب سے 11 ریاستوں میں تنظیم کے دفاتر اور سرکردہ رہنماؤں کے گھروں میں چھاپوں کے دوران تنظیم کے صدر سمیت 106 افراد کو گرفتار کر لیا۔

یہ کارروائی بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ایک بجے شروع ہوئی اور صبح پانچ بجے تک جاری رہی۔ اس میں سرکاری ایجنسیوں کے اعلیٰ عہدے داروں سمیت 200 اہلکاروں نے حصہ لیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چھاپوں کے دوران 150 موبائل فونز، 50 لیپ ٹاپ اور مبینہ قابل اعتراض دستاویزات ضبط کی گئیں۔

کارروائی کے لیے چھ کنٹرول رومز بنائے گئے تھے اور وزارتِ داخلہ اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اس کی نگرانی کر رہی تھیں۔ نئی دہلی میں این آئی اے کے صدر دفتر پر سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ پی ایف آئی کے بعض رہنماوں اور کارکنوں کو دہلی لایا جا رہا ہے۔

پی ایف آئی کے کارکنوں نے چھاپو ں اور گرفتاریوں کے خلاف چنئی، بنگلور اور دیگر مقامات پر احتجاج کیا۔ پی ایف آئی نے ایک بیان جاری کرکے گرفتاریوں کی مذمت کی اور کہا کہ ہم اختلافی آوازو ں کو دبانے کے لیے حکومت کی جانب سے ایجنسیوں کے استعمال کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔

یہ چھاپے کیرالہ، کرناٹک، آندھرا پردیش، آسام، دہلی، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، راجستھان، تمل ناڈو، اترپردیش اور پڈو چیری میں پولیس کے تعاون سے مارے گئے۔ این آئی اے نے ان چھاپوں کو اب تک کی سب سے بڑی تحقیقاتی کارروائی قرار دیا ہے۔


یاد رہے کہ مختلف ریاستی حکومتیں وقتاً فوقتاً پی ایف آئی پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات لگاتی رہی ہیں جن کی پی ایف آئی تردید کرتا رہا ہے۔ کرناٹک کے مختلف تعلیمی اداروں میں پیدا ہونے والے حجاب تنازعے کے لیے اسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ میں چلنے والی سماعت کے دوران بھی کرناٹک حکومت کی جانب سے اس تنازعے کے لیے اسے موردِ الزام قرار دیا گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حال ہی میں وزارتِ داخلہ نے مرکزی ایجنسیوں کو خبردار کیا تھا کہ پی ایف آئی خلیجی ملکوں میں منظم نیٹ ورک کے توسط سے فنڈ اکٹھا کر رہا اور اسے خفیہ اور غیر قانونی ذرائع سے بھارت بھیج رہا ہے۔

این آئی اے نے آندھرا پردیش اور تیلنگانہ میں گرفتار کیے گئے بعض کارکنوں کے معاملے میں 19 ستمبر کو عدالت میں ایک رپورٹ داخل کی جس میں اس نے پی ایف آئی پر اپنے کارکنوں کو ٹریننگ، مخصوص مذہب کے لوگوں کو ہلاک کرنے کی ہدایت اور دہشت گرد سرگرمیاں انجام دینے کی سازش کا الزام لگایا تھا۔

یاد رہے کہ پی ایف آئی انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیتا ہے۔ البتہ اس سے الگ ہونے والے لوگوں نے 2009 میں ’سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا‘ (ایس ڈی پی آئی) نامی ایک سیاسی پارٹی قائم کی ہے۔ پی ایف آئی انتخابات میں اس کی حمایت کرتا ہے۔ کرناٹک اور کیرالہ میں ایس ڈی پی آئی انتخابات میں حصہ لیتی ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے سابق قومی سیکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے مطابق دہشت گردی کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی تنظیم ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن ایک جمہوری ملک میں اختلافی آوازوں کو دبانا جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ جنوب کی چار ریاستوں میں پی ایف آئی کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ وہاں اس کے عوامی جلسوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔

ان کے بقول اس سے قبل بھی پی ایف آئی کے خلاف کارروائیاں ہوئی ہیں لیکن اس بار جو کارروائی ہوئی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ اس پر پابندی لگانے کے لیے ہی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق حکومت پی ایف آئی پر ٹیرر فنڈنگ کا الزام لگاتی ہے لیکن اس کو ثابت نہیں کر پاتی۔

اُنہوں نے بتایا کہ جھارکھنڈ کی سابقہ بی جے پی حکومت نے 2018 میں پی ایف آئی پر پابندی لگائی تھی لیکن اس نے اپنی چارج شیٹ میں دہشت گردی کے الزامات کو شامل نہیں کیا۔ لہٰذا ہائی کورٹ نے چھ ماہ کے اندر پابندی ختم کر دی تھی۔ 2019 میں پھر پابندی لگا دی گئی جس کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ 2018 میں اترپردیش کی حکومت نے مرکز سے پی ایف آئی پر پابندی لگانے کی سفارش کی تھی۔


بنگلور کے ایک سینئر صحافی سید تنویر احمد کہتے ہیں کہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پی ایف آئی فرقہ وارانہ سیاست کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔

اس معاملے میں پی ایف آئی کے اہلکاروں سے ردعمل لینے کی کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔ تاہم پی ایف آئی کے جنرل سیکریٹری انیس احمد نے کچھ دنوں قبل وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پی ایف آئی پر لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے کسی بھی معاملے میں پی ایف آئی کا ہاتھ ثابت نہیں ہوا ہے۔ صرف ایک معاملے میں اس کے ایک کارکن کو عدالت سے سزا سنائی گئی تھی جس کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ ان کے بقول پی ایف آئی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ایف آئی نے ملک کی دستور مخالف طاقتوں کے خلاف ایک سخت موقف اختیار کیا ہے۔ ہم ہندو احیا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے خلاف ہیں کیوں کہ وہ آئیڈیا آف انڈیا کے خلاف ہے۔ وہ ہندوتوا کے نظریے کو ملک میں نافذ کرنا اور دستور کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

پی ایف آئی کیوں اور کب بنی؟

یاد رہے کہ جنوبی ہند کی تین مسلم تنظیموں نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ کیرالہ، کرناٹکا فورم فار ڈگنٹی اور منیتھا نیتھی پسرائی تمل ناڈو کے انضمام کے بعد 2007 میں پی ایف آئی کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) پر پابندی کے بعد اس کا عروج ہوا۔ حکومت کا الزام ہے کہ سیمی کے متعدد کارکن اس میں شامل ہیں۔ پی ایف آئی اس کی تردید کرتا ہے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ پی ایف آئی دائیں بازو کی ہندو تنظیموں آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور ہندو جاگرن ویدک کی طرز پر مسلمانوں کے درمیان سماجی اور اسلامی سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔

پی ایف آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ اقلیتوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کی لڑائی لڑتا اور بی جے پی، کانگریس، جنتا دل ایس اور دیگر سیاسی جماعتوں کی مبینہ عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG