رسائی کے لنکس

پارلیمان، عدلیہ اور مقننہ کو مل کر کام کرنا چاہیے: رضا ربانی


کوئٹہ
کوئٹہ

بقول اُن کے، ’’آئین میں کہا گیا ہے کہ حکومت عوامی نمائندے چلائیں گے۔ لیکن، کبھی پارلیمان کو مارشل لا سے ختم کیا جاتا ہے تو کبھی اٹھاون ٹو بی کا سہار لے کر جمہوریت ختم کر دی جاتی ہے۔ اور، اب ہمارے سامنے ایک اور نیا طریقہ آگیا ہے، جس سے منتخب حکومتوں کو گھر بھیجا جا رہا ہے“

پاکستان کے ایوان بالا، سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کی ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کسی طور پر بھی ملک کے لیے سود مند نہیں ہے۔

بدھ کو کوئٹہ میں گزشتہ سال ایک خودکش حملے میں مارے جانے والے وکیل باز محمد خان کاکڑ کے نام پر قائم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے، چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کی پالیسی ترک کرتے ہوئے مل کر کام کرنا چاہیئے۔

اُن کے بقول، ”پاکستان میں ایگزیکٹیو پارلیمان پر حملہ آور ہوتی ہے اور عدلیہ کے کام میں مداخلت کرتی ہے اور عدلیہ پارلیمان اور ایگزیکٹو پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی ہے ان سب اقدامات میں پارلیمان کو انتہائی کمزور ادارہ بنا دیا ہے۔ آئین میں کہا گیا ہے کہ حکومت عوامی نمائندے چلائیں گے۔ لیکن، کبھی پارلیمان کو مارشل لاء سے ختم کیا جاتا ہے تو کبھی اٹھاون ٹو بی کا سہار لے کر جمہوریت ختم کر دی جاتی ہے۔ اور، اب ہمارے سامنے ایک اور نیا طریقہ آگیا ہے، جس سے منتخب حکومتوں کو گھر بھیجا جا رہا ہے۔“

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سینیٹ کے چئیرمین کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب صرف ایک ہی ہفتہ قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رُکنی بنچ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو اثاثے چھپانے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اُنھیں نااہل قرار دے چکی ہے۔

اس فیصلے پر، مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادی جماعتوں کے قائدین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ وہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی نہیں چاہتا۔ لیکن، وہ یہ بات ضرور سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ ایگزیکٹیو اور پارلیمان کو اپنی مقرر کردہ حدود میں کام کرنا چاہیے۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ سینیٹ کی جانب سے عدلیہ، ایگزیکٹیو، پارلیمان اور اسٹیبلشمنٹ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور حدود کے تعین کے لیے آپس میں بات کریں۔

رضا ربانی نے بظاہر بلوچستان میں امن و امان کی صورت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی اولین ترجیح شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ لیکن، اُن کے بقول، حکومتی اداروں نے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے آنے والے غیر ملکیوں کو تحفظ دینے کو اولیت دی اور اس مقصد کے لیے ایک خصوصی فورس بھی تشکیل دی۔

سمینار سے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف، سینیٹر اعتزاز احسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہشتگردی کا شکار ہیں۔ اور وفاقی حکومت کو ان دو صوبوں کی ترقی اور ان کے مسائل اور آئین کے مطابق حقوق دینے کے لئے اقدامات کرے۔

سیمینار سے صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے صوبے میں امن و امان کے قیام کے لئے نیاانسداد دہشت گردی فورس تشکیل دے دیا ہے، اس کے علاوہ فرنٹیر کور بلوچستان کو بھی پولیس کے اختیارات دے دئیے ہیں۔ ان اقدامات کی بدولت امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہوگئی ہے، اور حال ہی میں مزید فیصلے بھی کئے گئے ہیں جن کی بدولت مزید بہتری بھی آئیگی۔

سیمینار سے بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام نظریاتی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، نیشنل پارٹی کے سربراہ عبدالحئی بلوچ، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، بلوچستان بار کونسل کے نمائندوں اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

یاد رہے کہ بلوچستان میں گزشتہ سال 8 اگست کو بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال کاسی کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا اور جب ان کی میت لینے کے لیے وکلا کی ایک بڑی تعداد سول اسپتال پہنچی تو اسی وقت ایک خودکش حملہ آور نے اپنے جسم سے باندھے ہوئے بارود میں دھماکہ کیا جس میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے؛ جن میں 50 سے زائد وکلا شامل تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری داعش کی طرف سے قبول کی گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG