رسائی کے لنکس

لال قلعے کے احاطے میں روایتی شان و شوکت کے ساتھ مشاعرہ


لال قلعے کے مشاعرے مین اسٹیج کا منظر، مائیک پر شریف الحسن نقوی ہیں
لال قلعے کے مشاعرے مین اسٹیج کا منظر، مائیک پر شریف الحسن نقوی ہیں

لال قلعے کے سبزہ زار پر روایتی یوم جمہوریہ مشاعرے کا آغاز علامہ اقبال کے ترانہٴ ہندی ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ اور قومی ترانے سے ہوا۔ اس کی صدارت الیکشن کمشنر وائی ایس قریشی نے کی جبکہ ان کے ساتھ بزرگ شاعر گلزار دہلوی، دہلی کی وزیر صحت پروفیسر کرن والیا، وزیر خوراک ہارون یوسف اور دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین شریف الحسن نقوی نے مشاعرے کی شمع روشن کی۔

مشاعرے سے قبل افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے ہارون یوسف نے اردو زبان کی قومی خدمات اور مشاعرہ لال قلعہ کی روایت پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ لال قلعے کا مشاعرہ ہمیشہ روایتی شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوا ہے اور شعرا کو بھی اس بات کا احساس رہتا ہے کہ وہ ملک کے سب سے با وقار اور عظیم مشاعرے میں اپنا کلام سنا رہے ہیں۔

شریف الحسن نقوی نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں بتایا کہ اس تاریخی لال قلعے نے مغلیہ سلطنت کا جاہ و جلال بھی دیکھا ہے اور اس کا زوال بھی دیکھا ہے۔ آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر کے وقت اسی لال قلعے میں عظیم الشان مشاعرے ہوا کرتے تھے جو اردو تہذیب کا اثاثہ ہیں، لیکن 1857ء کے ہنگاموں کے بعد مسلسل 90سال تک اس تاریخی عمارت، اس کے دیوان عام اور دیوان خاص کے در و دیوار شعرا کے کلام کو ترستے رہے اور تقریباً ایک صدی تک یہاں کوئی مشاعرہ نہیں ہوا۔

لیکن آزادی ملنے کے بعد پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اس مشاعرے کی نشاة الثانیہ کی اور انھوں نے چھ فروری1950کو مشاعرہ کا آغاز کیا۔اس کے بعد سے مسلسل اس کا انعقاد ہو رہا ہے۔

وائی ایس قریشی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ اس قلعے نے اردو زبان کی پرورش کی ہے۔ یہیں اس کے خد و خال سنورے ہیں اور یہیں سے اردو کی مقبولیت کا کارواں آگے بڑھا ہے۔دیوان عام اور دیوان خاص میں منعقد ہونے والے مشاعروں اور شعری نشستوں کی ایک تاریخ ہے جو سنہرے الفاظ میں رقم ہے۔ بیشتر کلاسیکی شعرا کا کلام اسی قلعہ معلیٰ کے درو دیوار کے درمیان گونجا کرتا تھا۔

پروفیسر کرن والیا نے کہا کہ وہ اردو شاعری سے بہت متاثر ہیں، اردو زبان انہیں بہت پیاری ہے اور وہ اردو الفاظ کی شیرینی سے بہت لطف اندوز ہوتی ہیں۔جو لوگ اردو سے ناواقف ہیں وہ بھی اس کی شیرینی کے شیدائی ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ اردو دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے توڑنے والی نہیں، وہ اسی سرزمین پر جنمی، یہیں پلی بڑھی اور یہیں جوان ہوئی۔ اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اسے عوام کا بہت پیار ملا ہے۔

معروف ڈرامہ نگار اور افتتاحی پروگرام کے ناظم انیس اعظمی نے، جو کہ دہلی اردو اکیڈمی سے وابستہ ہیں، اپنے مخصوص لب و لہجے اور خوبصورت انداز میں لال قلعہ سے متعلق کئی واقعات کا ذکر کیا اور بتایا کہ آزادی کے بعد جب لال قلعہ فوج کے حوالے کر دیا گیا تو اس وقت حکومت نے جنرل کری پا سے، جو کہ چیف آف آرمی اسٹاف تھے، لال قلعے میں مشاعرے کے اہتمام کا حکم دیا۔ اس کے بعد 25جنوری 1953ء کو جو مشاعرہ ہوا اس کو مشاعرہٴ جشنِ جمہوریت کہا گیا اور اس کے بعد سے یہی اس مشاعرے کا نام پڑ گیا۔

انیس اعظمی نے مزید کہا کہ اس وقت جہاں مشاعرہ ہو رہا ہے اور جسے فٹ بال گراؤنڈ کہتے ہیں، اس کے نیچے مغل دور حکومت میں ’مغل گارڈن‘ کے نام سے ایک خوبصورت باغیچہ ہوا کرتا تھا۔ محکمہٴ آثار قدیمہ نے زمین کی کھدائی کر کے اس کی نشاندہی کی ہے اور محکمے نے دو سال کا وقت مانگا ہے۔ دو سال کے بعد اس گراؤنڈ کی کھدائی کر کے اس باغیچے کی بازیافت کی جائے گی۔

مشاعرے کے ناظم اور معروف شاعر ملک زادہ منظور احمد نے بھی اردو زبان اور مشاعروں کی روایت پر اظہارِ خیال کیا۔

جن شعرا کا کلام پسند کیا گیا ان کے نام اور اشعار کے نمونے پیش ہیں:

گلزار دہلوی
تاریخ اب جو ہو گی مرتب زبان کی
گلزار دہلوی کو بھلایا نہ جائے گا

ملک زادہ منظور احمد
دیکھنے والو ! جمال نقش ہائے رنگ رنگ
آئینے میں شکل اپنی بھی کبھی دیکھا کرو

کرشن کمار طور
خبر جہاں کو بھلا کیا، ہماری آنکھوں میں
لہو رگوں سے نہیں کربلا سے آتا ہے

مخمور سعیدی
وہ کل بھی جھوٹ بولا تھا وہ کل بھی جھوٹ بولے گا
جو سچ پوچھو تو اس کا جھوٹ کب اچھا نہیں لگتا

حق کانپوری
ان کے پیغام کے ہمراہ رسد آئی ہے
عہد و پیمان کی صورت میں مدد آئی ہے
میں نے لکھا تھا محبت بھرا اک خط ان کو
طشتِ اخلاق میں سج دھج کے سند آئی ہے

انجم رہبر
پھول کی عمر تو بہت کم ہے
آپ خوشبو سنبھال کر رکھنا

مظفر رزمی
جب بھی اے دوست تری سمت بڑھاتا ہوں قدم
قافلے بھی مرے ہمراہ چلے آتے ہیں

پاپولر میرٹھی
دیکھا جو نوجوانوں کو دعوت میں ناچتے
واعظ ندی میں عشق کے گہرے اتر گیا
پھسلا جو ایک شوخ حسینہ کو دیکھ کر
’اٹھا، جھکا، سلام کیا، گر کے مرگیا

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG