رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری: سپریم کورٹ میں چیف جسٹس بہت خاموش نظر آئے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا مقررہ وقت ساڑھے 11 بجے تھا اور ماحول خاصا کشیدہ نظر آرہا تھا۔اس کیس کے بارے میں صحافی اور وکلا اپنے اپنے اندازے لگا رہے تھے اور سب ہی کو بے چینی سے سماعت شروع ہونے کا انتظار تھا۔

کیس کی سماعت شروع ہونے میں مسلسل تاخیر ہورہی تھی۔ لیکن جب دوپہر سوا ایک بجے تک سماعت شروع نہ ہوئی تو انتظار کی جگہ تشویش نے لے لی کیوں کہ اندازہ یہی تھا کہ آج سپریم کورٹ سے کوئی بڑی خبر آجائے گی۔

دن ایک بج کر 20 منٹ پربڑی خبر تو آئی لیکن وہ نہیں، جس کی توقع کی جارہی تھی۔ خبر یہ تھی کہ نو رکنی بینچ میں شامل چار جج کیس کی سماعت سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔ 23 فروری کی سماعت کا حکم نامہ جب سامنے آیا تو چند لمحے تو مجھ سمیت بیش تر صحافی اس بات پر حیران تھے کہ اگر چار ججز بینچ کا حصہ نہیں رہے تو بینچ کیسے برقرار ہے۔

لیکن اس پر قریب بیٹھے ایک وکیل صاحب نے واضح کیا کہ یہ چیف جسٹس کا اختیار ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اس بینچ کو برقرار رکھ سکتے ہیں اور جو جج چاہے وہ اس بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرسکتا ہے۔

ایک اور دل چسپ معاملہ یہ سامنے آیا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کی طرف سے بینچ کا حصہ رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑنے کے بعد وہ اس بینچ کا حصہ نہیں رہے۔

اس بارے میں چیف جسٹس نے کہا کہ چار جج صاحبان اس بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہتے لیکن جسٹس یحییٰ آفریدی کا بینچ میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑنے کا معاملہ حیران کن تھا۔

میڈیا کے لیے مشکل دن

ابھی ہم بینچ سے ججوں کی علیحدگی سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو پوری طرح سمجھ بھی نہیں پائے تھے کہ اچانک سماعت شروع ہونے کا اعلان ہوا اور 5 جج صاحبان کمرہ عدالت میں داخل ہوگئے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے سماعت کا آغاز کیا اور فیصلے کی تفصیل سنائی اور کہا کہ ہم جلد سے جلد اس کیس کی سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کل ہر صورت مقدمے کو مکمل کرنا ہے۔

اس موقعے پر پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ فل کورٹ کے معاملہ پر درخواست دائر کی ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست بھی سن کر نمٹائی جائے گی۔

اس کے بعد علی ظفر نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا اور تمام دن ان کے دلائل کا سلسلہ جاری رہا۔

کیس کی سماعت سے پہلے ہی بدلتی صورتِ حال کی وجہ سے ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ آج کا دن میڈیا کے لیے خاصا مشکل ہوگا۔

کمرہ عدالت میں سماعت جاری تھی اورباہر صحافیوں کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں۔ طویل بیپرز اور تجزیے سپریم کورٹ سے براہ راست پیش کیے جارہے تھے، بینچ ٹوٹنے بننے پر بات ہورہی تھی اور رپورٹرز برق رفتاری سے اپنے اپنے چینلز کو ٹکرز بھجوا رہے تھے۔

اب کیا ہوگا؟

اس دوران نوجوان صحافی ذوالقرنین نے کہا کہ جن دو ججز پر اعتراض تھا وہ تو نکل گئے لیکن ان کے ساتھ ساتھ بظاہر مخالف ججز بھی نکل گئے ہیں۔ اب سیاسی جماعتوں کا اعتراض ختم ہوگیا۔

یہی سوال جب فاروق نائیک سے کیا گیا کہ اب آپ کی فل کورٹ کی درخواست کا کیا بنے گا؟ تو اس پر انہوں نے کہا کہ یہ لیڈرشپ جانے ، ہمیں اعتراض تھا جو ہم نے عدالت میں اٹھایا۔ اچھا ہوا کہ ججز نے خود ہی کیس سننے سے معذرت کرلی۔

زلزلہ، سیلاب اور پی ایس ایل

سماعت کے لیے کمرہ عدالت میں پہنچے تو وہاں ایک بار پھر علی ظفر اپنے دلائل جاری رکھے ہوئے تھے۔

ایک موقعے پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر زلزلہ یا سیلاب آجائے یا جنگ، ہوجائے، کرفیو لگ جائے اور ایمرجنسی کی صورتِ حال ہے تو کیا ہوگا ؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے؟

اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جنگ اور سیلاب میں ہی الیکشن رک سکتے ہیں۔

ایک موقعے پر پی ایس ایل کا ذکر بھی سامنے آیا جب جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پورے پاکستان میں کرکٹ ہو رہی ہے لیکن انتخابات نہیں ہوسکتے۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے ہی نہیں ہیں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن راضی تو ہو لیکن وسائل نہ ہوں تو پھر کیا ہوگا ؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ10 سال الیکشن نہ ہوں۔

اس تمام صورتِ حال میں جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ابھی تو صرف تاریخ پر بات ہورہی ہے۔ رشتہ ہوا نہیں ہے، اس کی تاریخ بعد میں ہوگی۔ ان کے اس بات پر پوری عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

چیف جسٹس خاموش نظر آئے

سماعت کے دوران ایک معاملے پر سب خاصے حیران تھے کہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال جو اکثر سماعت کے دوران مختلف ریمارکس دیتے رہتے ہیں وہ خاصے خاموش نظر آئے۔ چیف جسٹس نے بہت کم سوالات کیے اور زیادہ تر وہ چپ چاپ اپنے سامنے پھیلے کاغذات کا جائزہ لیتے رہے۔

عدالت کے باہر پی ٹی آئی کے رہنما اور حامی وکیل خاصے پرجوش نظر آرہے تھے۔ اظہر صدیق کمرہ عدالت سے باہر آئے تو معمول کے مطابق ان سے پوچھا کہ جناب کیا صورتِ حال ہے؟ جس پر انہوں نے اپنے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں دکھاتے ہوئے کہا پانچ صفر۔

اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ کل سماعت مکمل ہونے کے بعد متفقہ فیصلہ آئے گا۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں اس پانچ رکنی بینچ کے بجائے فل کورٹ تشکیل دینا چاہیے تھا تاکہ سب کو پتہ چلے کہ آئین کے ساتھ کون ہے اور اس کے مخالف کون کھڑا ہے۔

زیادہ تر لوگوں کا بھی یہی خیال تھا کہ عدالت 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کے لیے آئین کے حکم کو نظرِ انداز کرتی ہے تو اس کے لیے کیا قانونی نکتہ ہوگا؟ بیشتر کا خیال تھا کہ ایسا کوئی قانونی نکتہ موجود نہیں ہے۔

سماعت کے آخر میں علی ظفر خاصے تھکے ہوئے نظر آ رہے تھے اور گھر جانے کی تیاری کررہے تھے کہ اچانک سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے ان سے سوال کیا کہ آج آنے والا آرڈر تو 23 فروری کی سماعت کا ہے۔ اگر یہ آرڈر صحیح ہے تو 24 فروری کی سماعت کی قانونی حیثیت کیا ہوگی جس میں تمام نو ججز بیٹھے ہوئے تھے۔

اس پر علی ظفر یہ کہہ کر گزر گئے کہ بھائی میں بینچ میں نہیں تھا دلائل دے رہا تھا، یہ سوال اندر جا کر پوچھیے۔

XS
SM
MD
LG