رسائی کے لنکس

طالبان کے بڑھتے قدم، ایک رپورٹر کی 1994 کی یادداشتیں


ستمبر 1994 میں طالبان نے افغانستان کے جنوب مغربی، جنوبی اور مشرقی صوبوں میں جنگی محاذ پر ایک کے بعد ایک کامیابی حاصل کی۔ (فائل فوٹو)
ستمبر 1994 میں طالبان نے افغانستان کے جنوب مغربی، جنوبی اور مشرقی صوبوں میں جنگی محاذ پر ایک کے بعد ایک کامیابی حاصل کی۔ (فائل فوٹو)

پشتو میں مذہبی مدارس کے طلبہ کے لیے طالبان کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی جنھیں تاریخی طور پر افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیا میں پھیلے سیاست سے گریز کرنے والے عبادت گزار اور دنیا ترک کرنے والے طبقے کےطور پر جانا جاتا تھا۔

مذہب سے وابستگی کو فروغ دینے کے لیے طالبان اس بات کو بہت نمایاں کرتے تھے کہ وہ موت کے بعد کی زندگی کے لیے اس 'عارضی دنیا' کی لذتوں اور عیش و عشرت سے کنارہ کشی کیے ہوئے ہیں۔

طالبان نے 1994 کے آخر میں قندھار سے اپنی تحریک کا آغاز کیا تو اسی پارسائی کی شبیہ کی وجہ سے افغانوں میں انہیں پذیرائی ملی۔

میں اس وقت پشاور میں رپورٹر تھا اور طالبان سے میری پہلی ملاقات ایک دفتر میں ہوئی تھی۔ طالبان کا وفد افغانستان کے دور افتادہ شہر میں اپنے عروج کی داستان بی بی سی کے نمائندے کو سنانے کے لیے پشاور آیا تھا۔

اس کے بعد ستمبر 1994 میں طالبان نے جب افغانستان کے جنوب مغربی، جنوبی اور مشرقی صوبوں میں جنگی محاذ پر ایک کے بعد ایک کامیابی حاصل کرنا شروع کی تو وہ دنیا کی نظروں میں آگئے۔ ان میں سے اکثر علاقے پاکستان کی سرحد سے ملحق تھے اور مختلف جنگجو سرداروں کے قبضے میں تھے۔مقامی لوگوں کے نزدیک 1990 کی دہائی میں ان جنگجو سرداروں میں دنیا کا ہر شر موجود تھا اور وہ طالبان کی تحریک کو ان سرداروں کے خلاف اٹھنے والی پہلی بغاوت کے طور پر دیکھتے تھے۔

پرتپاک استقبال

ملا احسان اللہ 1995 میں طالبان کی طرف سے ایک صوبے کے گورنر تھے۔ انہوں نے خوست کے پشتونوں میں طالبان کی پذیرائی کے بارے میں مبالغہ آمیز انداز میں مجھے اور ایک مغربی صحافی کو بتایا تھا، "یہاں خوست میں بزرگوں نے میرا پُرتپاک استقبال کیا اور قندھار سے یہاں تک ایک گولی بھی نہیں چلی۔"

افغان امن عمل کی تاریخ پر ایک نظر
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:32 0:00

پشاور سے براستہ وزیرستان خوست اور افغانستان کے دیگر علاقوں کا سفر میرے لیے چشم کشا تھا۔ اگرچہ سفر کرنے والے ہمارے اس گروپ میں سے مغربی ملکوں سے آنے والے صحافیوں سمیت کسی کے پاس بھی افغانستان کا ویزہ نہیں تھا لیکن پھر بھی پاکستان کے سرحدی قصبے غلام محمد کے راستے ہمارا یہ سفر بہت سہل رہا۔ خوست میں طالبان کو ہمارے سفری دستاویزات کی کوئی پروا نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے اس بارے میں سوال کیا۔

اس وقت طالبان کے دامن پر پہلے ہی یہ داغ تھا کہ انہیں افغانستان میں پاکستانی ریاست کی محض ایک توسیع سمجھا جاتا تھا۔ ان میں سے کئی جنگجو پاکستانی مدارس کے تعلیم یافتہ تھے اور اکثر افغانوں کی طرح پشتو یا دری میں بات کرنے کے بجائے اُردو بولتے تھے۔ طالبان کو اس وقت کی وزیرِ اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کی علی الاعلان حمایت بھی حاصل تھی۔

طالبان کی ابتدائی سخت گیر پالیسیاں

میرے خوست پہنچنے سے چند ہفتے قبل ہی طالبان نے یہ صوبہ ’فتح‘ کیا تھا۔ وہ کسی بھی شہر یا صوبے کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس کے لیے ’فتح‘ کرنے کی اصطلاح ہی استعمال کرتے تھے۔ صوبہ فتح کرتے ہی انہوں نے وہاں مقامی قبائلی ضابطوں کے ساتھ ساتھ اپنی سخت گیر تعبیرات کے مطابق شرعی قوانین نافذ کر دیے تھے۔ طالبان کی مذہبی پولیس تندہی کے ساتھ روزانہ کی بنیادوں پر اپنے قواعد کی خلاف وزری کرنے والوں کی تلاش میں رہتی تھی۔

اس سفر میں افغان طالبان کا ایک ایسا پہلو میری نظر سے گزرا جو ان کے پاکستانی ساتھیوں سے مختلف تھا۔ یہاں جنگجو لمبے بال رکھتے اور داڑھیوں کی تراش خراش نہیں کرتے تھے۔ ان کے سروں پر پگڑی اور کاندھے پر بندوق ہوتی تھی۔ انہوں نے دوسروں کو خوف زدہ کرنے والا حلیہ اختیار کیا ہوتا تھا اور اپنے ٹویوٹا پک اپ ٹرکوں پر گشت کے لیے نکلتے تھے۔

یہ اس سے بالکل برعکس منظر تھا جو میں نے پاکستان کے مدارس میں دیکھا تھا جہاں ان کا انداز عاجزانہ ہوتا ہے، مذہبی کتابیں اٹھائے ان میں سے اکثر شرمیلے ہوتے تھے اور کاندھے پر چادریں پڑی ہوتی تھیں اور کوئی ہتھیار نہیں ہوتا تھا۔

خوست میں ایک ہفتے کے قیام کے دوران میں نے کسی خاتون کو نہیں دیکھا۔ طالبان گورنر خواتین کی نقل و حرکت پر پابندیوں کے جواز کے طور پر قرآن کی آیات اور پشتون قبائلی روایات کا حوالہ دیتے تھے۔

مجھے ملّا احسان کے ساتھ طالبان کے زیرِ انتظام علاقوں میں خواتین کے کردار جیسے حساس موضوع پر ہونے والی گفتگو آج بھی یاد ہے۔ ان کے دلائل کا خلاصہ یہ تھا کہ شریعت میں مسلم خواتین اور مردوں کا ایک دوسرے کو دیکھنا جائز نہیں ہے۔

انہوں ںے قرآن کی ایک آیت کا حوالہ بھی دیا تھا جس کے مطابق خواتین کو اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ملا احسان نے معاشرے میں خواتین کے کردار سے متعلق اپنے نظریے کو جواز فراہم کرنے کے لیے اس آیت کا انتخاب کیا تھا اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ایک عورت کس کس سے بات کرسکتی ہے اور اسے اپنا جسم کتنا چھپانا چاہیے اور کتنا ظاہر کرنے کی اجازت ہے۔

قرآن کو بطور دلیل پیش کرکے انہوں نے خوست کے لوگوں اور ہماری گفتگو میں اس موضوع پر ہونے والی بحث ہی ختم کردی تھی۔ طالبان گورنر اور ان کے مرد معاونین کے پاس دلیل دینے کے لیے قرآن تھا اورخوست کی مالامال ثقافتی تاریخ پسپا ہوچکی تھی۔

بچپن سے میں پشتو لوک موسیقی اور معروف منفرد رقص ’اتن‘ کے ارتقا میں خوست کے گراں قدر حصے کے بارے میں سنتا آیا تھا۔ پشتو لوک ادب میں افغانستان کے لویہ پکتیا خطے سے جنم لینے والے اتن رقص کے دل کش حوالے ملتے ہیں۔

رقص، لوک ادب رخصت ہوئے

طالبان کی حکومت نے خوست میں رقص اور ادب پر پابندی عائد کردی تھی۔ افغانستان اور پاکستان میں 1990 کی دہائی میں موسیقی کی آڈیو کیسٹس کا رواج ابھی باقی تھا۔ طالبان نے گورنر ہاؤس میں ضبط کی گئی ان آڈیو کیسٹس کے ڈھیر لگادیے تھے۔

کیسٹ ٹیپس کو توڑ پھوڑ کر انہیں بازاروں اور سڑکوں پر رکھ دیا گیا تھا تاکہ گزرنے والوں کو اس بات کی یاددہانی ہوتی رہے کہ طالبان کی حکومت میں موسیقی ممنوع ہے۔ طالبان کے مسلح افراد تمام گاڑیوں کے ٹیپ ریکارڈرز اور کیسٹس کی جانچ کرتے تھے کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اسلام میں موسیقی حرام ہے۔ بعض ڈرائیور اپنے ٹیپ ان کی دستبرد سے محفوظ رکھنے کی خاطر طالبان کو جھانسہ دینے کے لیے مذہبی کیسٹس چلا دیا کرتے تھے۔

خوست میں 1995 تک سنیما گھروں کو مسجدوں میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ خوست یونیورسٹی بند کردی گئی تھی۔ اسی طرح لڑکے اور لڑکیوں کے اسکول بھی اکتوبر 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے تک بند ہی رہے۔ اپنی حکومت میں طالبان نے اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم جاری نہ رکھنے کے لیے متعدد جواز دیے تھے۔

"صورتِ حال ٹھیک نہیں۔" یہ افغانستان میں اسکول نہ کھولنے کی طالبان کی بڑی دلیلوں میں سے ایک تھی۔ البتہ وہ صرف دو طرح کی تعلیم کو درست سمجھتے تھے: مذہبی اور طبی۔ اسی لیے 1995 سے 2001 تک طالبان دور میں افغانستان میں مدارس بہت پھلے پھولے۔

حجاموں کو اپنے گاہکوں کی داڑھیاں نہ مونڈھنے کے سخت احکامات دیے گئے تھے۔ اس لیے وہ مردوں کے صرف بال تراشتے تھے اور داڑھی کو ہاتھ بھی ںہیں لگاتے تھے۔

دکان داروں اور پھیری والوں پر پنج وقتہ نمازوں کے لیے کاروبار بند کرنا لازم تھا۔ مقامی تجارت کے لیے پاکستانی روپیہ استعمال ہوتا تھا۔ افغانستان کی اپنی کرنسی ’افغانی‘ بھی استعمال ہوتی تھی لیکن لین دین میں اسے ترجیح نہیں دی جاتی تھی۔ خانہ جنگی اور طالبان کی کابل اور شمال میں دیگر بڑے شہروں کی جانب پیش قدمی کے باعث امریکی ڈالر یا پاکستانی روپے کے مقابلے میں افغانی کرنسی کی قدر پہلے ہی گراوٹ کا شکار تھی۔

امریکی فوج کا انخلا: افغان خواتین خوف کا شکار کیوں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:49 0:00

آنے والے دور کے آثار

خوست میں طالبان نے جو شرعی اور دیگر پابندیاں عائد کی تھیں، بعد ازاں پورے ملک میں انہیں کا عکس نظر آیا۔

ابتدا میں طالبان نے پشتون اکثریتی علاقوں میں زیادہ سختی نہیں کی۔ شدت پسند کابل، مزارِ شریف اور بامیان میں زیادہ طاقت ور تھے۔ حکومت میں قدم جمنے کے بعد انہوں ںے مبینہ طور پر نسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کیں۔

طالبان نے 27 ستمبر 1996 تک جب کابل پر قبضہ کیا تو بظاہر وہ ایسے سخت گیر گروہ کے طور پر اپنی شناخت بنا چکے تھے جو مبینہ طور پر اسلام کی اپنی سخت تعبیرات کو حکمرانی کے لیے استعمال کرتا تھا۔

XS
SM
MD
LG