رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری:’ یوں لگا کہ ارشد شریف کے چہرے پر کئی سوال ہیں‘


ارشد شریف کے گھر کے لان میں ان کی ایک تصویر سجی ہوئی تھی جس کے نیچے پھولوں کے کئی بے نام گلدستے رکھے تھے۔
ارشد شریف کے گھر کے لان میں ان کی ایک تصویر سجی ہوئی تھی جس کے نیچے پھولوں کے کئی بے نام گلدستے رکھے تھے۔

ارشد شریف نے جب کچھ عرصہ قبل پاکستان چھوڑا تو کون جانتا تھاکہ انہیں اپنے ہی گھر لوگوں کے کاندھوں پر واپس لایا جائے گا۔

اتوار کی شب کینیا میں پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ان کا جسد خاکی منگل کو پاکستان لایا گیا تھا جسے ان کے گھر منتقل کیا جانا تھا۔ گزشتہ تین روز سے ارشد شریف کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ خبروں، تجزیوں اور سوشل میڈیا پر جاری بحث کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اسلام آباد میں ان کے گھر پر ان کے ساتھ کام کرنے والے صحافی، سیاست دانوں اور ان کے احباب کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔

میں جب کوریج کے لیے پہنچی تو ان کی گلی میں ان کا گھر تلاش کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی کیوں کہ وہاں ان کے عزیز واقارب اور چاہنے والے انھیں آخری الوداع کہنے کے لیے بڑی تعداد میں موجود تھے۔

تدفین سے پہلے ارشد شریف کا تابوت گھر لایا جانا تھا جہاں ان کے آخری دیدار کے منتظر لوگوں میں مجھے بھی جگہ مل گئی۔ میں یہاں بیٹھے بیٹھے ارشد شریف کے ساتھ ڈان نیوز میں اپنی مختصر ملاقاتوں کو یاد کر رہی تھی۔

ارشد شریف کا صحافتی سفر کئی دہایوں پر مبنی تھا۔ جس میں انہوں نے کئی اہم سنگ میل طے کیے تھے۔ اس سفر میں کئی موڑ آئے تھے لیکن کینیا سے اسلام آباد تک کے اس سفر نے ان کے خاندان کی دنیا بدل تھی۔

ان کے گھر پر جمع خواتین میں ارشد شریف کی والدہ کی ایک قریبی سہیلی مزنہ بھی موجود تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ارشد کی والدہ اس وقت غم سے نڈھال ضرور ہیں لیکن پرسہ دینے کے لیے آنے والے لوگوں کو کہاں بیٹھنا ہے اور کہاں پانی پلانا ہے، وہ ان سب انتظامات کی نگرانی خود کررہی ہیں۔

ارشد شریف کے گھر کے باہر انہیں آخری بار دیکھنے کے لیے آنے والوں کا ہجوم تھا۔
ارشد شریف کے گھر کے باہر انہیں آخری بار دیکھنے کے لیے آنے والوں کا ہجوم تھا۔

مزنہ کے قریب کھڑی خاتون جو کہ ارشد کی پرانی محلے دار تھیں میرے کہنے پر ارشد شریف کی اہلیہ سمعیہ کو بلا لائیں جو کالے لباس میں ملبوس تھیں۔ وہ آبدیدہ تھیں اور بات کرتے ہوئے ان کی آوا ز ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا بڑا بیٹا کینیڈا میں زیر تعلیم ہے اوراسی لیے ارشد شریف کا جنازہ جمعرات کو رکھا گیا کہ بیٹا آخری بار والد کا چہرہ دیکھ سکے۔

خواتین گھر کے احاطے میں بیٹھی تھیں جب کہ دروازے پر مردوں کا ہجوم تھا۔ ان ہی میں ارشد شریف کا جواں سالا بیٹا بھی کھڑا تھا جو اپنے والد کی اسپتال سے میت آنے کا انتظار کر رہا تھا۔

ارشد شریف کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا ہونا تھی اور ان کی اپنے خاندان سے آخری ملاقات ابھی باقی تھی۔ ایمبولینس جب ان کا جسد خاکی لے کر گھر پہنچی تو کلمے کی گونج میں ان کے تابوت کو گھر کے اندر لایا گیا۔

میری ساتھ بیٹھی فاطمہ نے بتایا کہ وہ ارشد شریف کو دیکھنے آئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا ارشد شریف کے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں تھا اور نہ ہی کبھی کوئی میل ملاقات رہی۔ وہ ارشد شریف کی بے وقت موت پر شدید افسردہ تھیں۔

ایک سوال کے جواب میں کہنے لگیں کہ بھلے سے ارشد شریف کی موت کی تحقیقات ہو رہی ہیں لیکن انہیں کچھ خاص امید نہیں ہے کہ یہ اپنے منطقی انجام تک پہنچیں گی۔ یہ کہتے ہوہے وہ میرے ساتھ اس قطار میں کھڑی ہو گئیں جو ارشد شریف کے آخری دیدار کے لیے بنوائی جارہی تھی۔

جب میں آخری دیدار کے لیے اندر پہنچی تو ارشد شریف کا تابوت ایک میز پر رکھا ہوا تھا جس کے آس پاس ان کے بیٹے کھڑے ہوئے تھے۔ کم عمری میں باپ کو الواداع کہنا آسان نہیں ہوتا۔ ان بچوں کے چہرے اداس تھے اور آنکھیں خاموش۔

عام طور پر دنیا سے رخصت ہونےوالوں کو آخری بار دیکھنے والے کوئی نہ کوئی تاثر ضرور لے کر لوٹتے ہیں۔ کسی کو جانے والے کے چہرے پر اطمینان نظر آتا ہے اور کوئی کسی کرب یا افسوس کی جھلک دیکھتا ہے۔میں نے جب ارشد شریف کا چہرہ دیکھا تو مجھےیوں لگا کہ اس پر کئی سوال ہیں۔

ان کی موت جن حالات میں ہوئی وہ غیر معمولی ہیں۔ وہ حالات کیا تھے اور ارشد کن سوالوں کی جستجو میں تھے یہ سب جواب ان کے ساتھ رخصت ہوگئے۔

میں اپنے دھیان میں ان سوالوں کے بارے ہی میں سوچ رہی تھی کہ اچانک آہ و بکا کی آواز بلند ہونے لگی۔ میں سمجھ گئی کہ ارشد شریف سے ملاقات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔

گھر کے باہر 1122 کی ایمبولینس آچکی تھی جس کے سامنے ہی لان میں ارشد کی تصویر سجی ہوئی تھی جس کے نیچے پھولوں کے کئی بے نام گلدستے رکھے تھے۔ اس وقت تک پولیس نے گھر کےدروازے پر ڈیرے جما لیے تھے۔ وہ ہجوم میں راستہ بنانے کے لیے تیاری کررہے تھے۔

اتنی دیر میں ایمبولینس کی کانوں کو چیرتی آواز اور پولیس کے ہوٹر گونجنے لگے۔ آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ہٹو بچو کے شور میں ارشد شریف کا تابوت ایمبولینس میں منتقل کردیا گیا اور وہ اپنے خاندان سے آخری ملاقات کے بعد ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔

  • 16x9 Image

    گیتی آرا

    گیتی آرا ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے نیوز اور فیچر سٹوریز تحریر اور پروڈیوس کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG