عرب ذرائع ابلاغ نے سعودی عرب کے شہزادہ الولید بن طلال کے خاندانی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکومت نے دو ماہ تک حراست میں رکھنے کے بعد شہزادہ ولید کو رہا کر دیا۔
ان کی رہائی کس سمجھوتے کے تحت عمل میں اس بارے میں تفصیلات فوری طور پر سامنے نہیں آئی ہیں۔
شہزادہ الولید کا شمار دنیا کا امیر ترین افراد میں ہوتا ہے اور ان کی کنگڈم ہولڈنگز نے کئی بڑی امریکی کمپنیوں بشمول ٹوئٹر اور سٹی گروپ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ وہ اپنے رفاحی کاموں کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔
شہزادہ الولید کو نومبر میں متعدد دیگر سعودی شہزادوں کے ہمراہ تحویل میں لے کر سعودی حکومت نے ریاض کے پرتعیش رٹز کارلٹن ہوٹل میں محبوس رکھا تھا۔
عرب میڈیا نے تقریباً 90 دیگر سعودی کاروباری شخصیات اور شاہی خاندان کے افراد کو رہا کرنے کا بھی بتایا ہے جو اس کے بقول حکومت کے ساتھ مالی معاہدے کے تحت عمل میں آئی۔
ان تمام افراد کو نومبر کے اوائل میں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کے سلسلے میں تحویل میں لیا گیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان افراد سے مالی معاہدے سے حکومت کو اربوں ڈالر کی رقوم حاصل ہوئی ہیں۔
حراست میں لیے گئے افراد میں قابل ذکر شہزادہ الولید بن طلال تھے اور اپنی رہائی سے کچھ دیر پہلے انھوں نے بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی 'روئٹرز' کو بتایا تھا کہ انھوں نے کسی بھی طرح کی مالی بے ضابطگی میں ملوث نہیں اور حکومت کے ساتھ ان کی بات چیت خوش اسلوبی سے ہو رہی ہے۔
"مجھ پر کوئی الزامات نہیں۔ بس حکومت کے ساتھ کچھ گفت و شنید ہو رہی ہے۔"
تاہم سعودی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے 'روئٹرز' کو بتایا کہ الولید نے جو کہا وہ 'نہ تو اس کی تردید کرتے ہیں اور نہ ہی تصدیق'۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ملزمان تحریری طور پر ایسا دوبارہ نہ کرنے کی یقین دہانی نہیں کرواتے کوئی بھی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔