رسائی کے لنکس

سائنس دانوں کا سوشل نیٹ ورک: ریسرچ گیٹ


سائنس دانوں کا سوشل نیٹ ورک: ریسرچ گیٹ
سائنس دانوں کا سوشل نیٹ ورک: ریسرچ گیٹ

یہ ایک سنجیدہ مشن ہے۔ ایک ایسا پلیٹ فارم جہاں ریسرچر ایک دوسرے سے رابطہ رکھ سکیں اور اپنے ایسے کام کے بارے میں معلومات فراہم کر سکیں جو ابھی شائع نہیں ہوا

’فیس بک‘ جیسے سوشل نیٹ ورک ہم دوستوں کو آپس میں مربوط رکھتے ہیں، پرانے کلاس فیلوز کو ڈھونڈ نے میں مدد بھی دیتے ہیں اور ہر کوئی جان لیتا ہے کہ اِرد گِرد ہو کیا رہا ہے۔ اور اب، سائنس دانوں کے لیے ایک سوشل نیٹ ورک قائم کیا جارہا ہے جس کے لیے امید ہے کہ وہ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے سائنسی ترقی میں پیش رفت کے لیے معاون ثابت ہوگا۔

ہارورڈ کے ایک ریسرچر ایجات مادش چند برس قبل میڈیکل امیجنگ کے ایک تجربے میں مصروف تھ، ے جب اُنھیں مختلف مسائل کا سامنا ہوا۔ کوئی ایسی بات تھی جو ٹھیک سے کام نہیں کر رہی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ، سائنسی تجربات کرتے ہوئے چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی بہت سا وقت لگ جاتا ہے۔مادش کے مشیر بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ تجربہ آخر سود مند ثابت کیوں نہیں ہو رہا ۔ اُن کی اپنی تجربہ گاہ میں کوئی اور اِس مسئلے پر کام بھی نہیں کر رہا تھا اور اُن کے ساتھی ریسرچرز اِس معاملے پر کوئی مدد نہیں دے سکتے تھے۔مادش بتاتے ہیں کہ وہ بے حد مایوس ہوئے۔

اُنھوں نے سوچا کہ کوئی شخص تو آن لائن ایسا ہونا چاہیئے جو اِس مسئلے پر کام کر رہا ہو۔ کوئی تو ایسی جگہ ہونی چاہیئے جہاں لوگ خود کو سائنس داں کے طور پر پیش کرسکیں اور اپنی ریسرچ اور پبلیکیشنز کے بارے میں معلومات دے سکیں تاکہ دوسرے سائنس داں اُن سے فائدہ اُٹھا سکیں۔

یہی وہ وقت تھا جب مادش کو سائنس دانوں کے لیے ایک سوشل نیٹ ورک بنانے کا خیال آیا۔ فیس بک کی طرح، لیکن ایک زیادہ سنجیدہ مشن کے ساتھ۔ ایک ایسا پلیٹ فارم بنانا جہاں ریسرچر ایک دوسرے سے رابطہ رکھ سکیں اور اپنے ایسے کام کے بارے میں معلومات فراہم کر سکیں جو ابھی شائع نہیں ہوا۔

مادش نے دیکھا کہ ’ریسرچ گیٹ‘ نامی اُن کا ’آئڈیا‘ سائنس دانوں کوزیادہ سود مند بنانے میں کام دیگا۔

وہ کہتے ہیں کہ، ’ میرا مقصد نوبل پرائز حاصل کرنا ہے اور اِسی میں میرا پختہ عزم ہے۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ ریسرچ گیٹ کے باعث مختلف شعبوں میں ریسرچ تیز ہو سکتی ہے اوراس سے مستقبل میں سائنس کی رفتار میں تبدیلی آجائے گی تو میرا خیال ہے کہ ایک دِن ایسا آئے گا جب ’ریسرچ گیٹ‘ ضرور نوبل پرائز حاصل کرسکے گا۔‘

یہ ایک وسیع تصور تھا، جس نے سرمایہ کاروں کو متاثر کیا۔

ریسرچ گیٹ کے لیے فیس بک کے ایک سابق اگزیکٹو نے سرمایہ فراہم کیا۔ یہ وہی فرم ہے جس نے’ ٹوئٹر‘ کے لیے بھی مدد کی تھی۔ ریسرچ گیٹ پر اب تک نو لاکھ افراد بطور میمبر کے طور پر سائن کر چکے ہیں۔

اِ س کی ایک میمبر کرولائن مور کوکلس ہیں۔ وہ بوسٹن یونیورسٹی میں اپنے دفتر میں اِس ویب سائٹ پر لاگ اِن کر رہی ہیں۔ اُن کے پروفائل پیج پر اُن کی تصویر متعلقہ شعبہ نیورو سائنس اُن کی ڈاکٹوریٹ کے لیے ایڈوائزر اور پبلیکیشنز سبھی کا تعارف شامل ہے۔ وہ اِسی طرح دوسرے ریسرچرز کو بھی دیکھ سکتی ہیں اور اُن کا کام بھی۔ یا پھر کسی موضوع پر ہونے والی بحث میں حصہ لے سکتی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ، آئیے دیکھتے ہیں کہ آج کمپی ٹیشنل نیورو سائنس گروپ کیا کر رہا ہے۔

مورکوکلس ریسرچ کو پسند کرتی ہیں کیونکہ یہاں وہ کوئی سوال یا پھر کسی مخصوص کیمیاوی ردِ عمل کے بارے میں بات کرسکتی ہیں۔اُنھیں یہ بھی پتا چل سکتا ہے کہ تجربہ گاہوں میں کیا کام کیا جارہا ہے اور تازہ ترین اشاعتی مواد سے باخبررہ سکتی ہیں۔

لیکن، ہر ریسرچر’ ریسرچ گیٹ‘ سے خوش نہیں۔

ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ میں کام کرنے والی، کِم برٹرانڈ کہتی ہیں: ’مجھے تو اِس میں کوئی نئی بات نظر نہیں آتی۔ ‘

اُن کا کہنا ہے کہ بعض ایسی ایسی اِی میلز ملتی ہیں، جیسا کہ لکھا ہو،’ ڈیئر سر، مجھے پبلک ہیلتھ پر ایک مقالہ تحریر کرنا ہے۔ آپ کوئی تجویز، کوئی مشورہ دیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ مجھے ایسی اِی میلز نہیں چاہئیں۔

’ریسرچ گیٹ‘ کے بانی مادش کا کہنا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اُن کی ویب سائٹ صرف اِس صورت میں فائدہ مند ثابت ہوگی اگر سائنس داں اِسے استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں۔ لیکن جیسا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اگر یہ سائنس دانوں کے لیے ناگزیر سوشل نیٹ ورک بن سکے تو وہ سمجھیں گی کہ اُنھوں نے ایک ریسرچر ہونے کی حیثیت سے سائنس کی ایک بڑی خدمت کی ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG