رسائی کے لنکس

انتخابی اصلاحات بل پر الیکشن کمیشن کے اعتراضات کیا ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2020 پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن اس ایکٹ میں بعض ترامیم کو آئینِ پاکستان سے متصادم سمجھتا ہے۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ انتخابی فہرستوں کے حوالے سے اسے آئین کے آرٹیکل 219 کے مطابق اختیارات حاصل ہیں اور آرٹیکل 222 کے تحت ان اختیارات کو نہ ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان میں کمی کی جا سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کا ایکٹ پاس ہو بھی جائے تو الیکشن کمیشن کو اپنے قوانین کے مطابق ہی چلنا ہے اور ایسے میں تنازع بڑھ جانے پر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوا سکتا ہے۔

دوسری جانب حکومت نے آئندہ ہونے والے ضمنی انتخاب میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کمیشن کو کن دفعات پر اعتراض ہے؟ْ

الیکشن کمیشن کا اجلاس منگل کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیرِ صدارت ہوا جس میں ممبران سمیت سینئر حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کے بعد میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ الیکشن ترامیم پر کمیشن اپنا مؤقف پہلے ہی وزارتِ پارلیمانی امور کو بھجوا چکا ہے۔

الیکشن کمیشن نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ان ترامیم پر کمیشن کے مؤقف کو قائمہ کمیٹی میں زیرِ بحث نہیں لایا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ الیکشن ترمیمی بل 2020 میں بعض ترامیم کو الیکشن کمیشن آئینِ پاکستان سے متصادم سمجھتا ہے۔

انتخابی فہرستیں نادرا کے حوالے

کمیشن کا کہنا تھا کہ انتخابی فہرستوں کی تیاری اور ان پر نظرِثانی کے اختیارات آرٹیکل 219 کے تحت الیکشن کمیشن کے بنیادی فرائض میں شامل ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 222 کے تحت ان اختیارات کو نہ ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کمی کی جاسکتی ہے۔ لیکن ترامیمی بل کے ذریعے اس بارے میں متعلقہ دفعات کو حذف کر دیا ہے۔ ان دفعات کو حذف کرنے سے انتخابی فہرستوں کی نظرِثانی کا عمل الیکشن کمیشن کے لیے ناممکن ہو جائے گا اور تمام اختیارات نادرا کے پاس چلے جائیں گے۔

ووٹرز کی بنیاد پر حلقہ بندیاں

مجوزہ ترمیمی بل میں ایک اور تبدیلی کے ذریعے حلقہ بندیوں کا عمل بھی تبدیل کیا گیا ہے اور اب حلقہ بندی آبادی کے بجائے رجسٹرڈ ووٹرز کی بنیاد پر کی جائے گی۔ اس سے قبل آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی میں نشستوں کو آبادی کی بنیاد پر مختص کیا جاتا تھا۔

سینیٹ انتخاب میں خفیہ ووٹنگ

الیکشن کمیشن نے سینیٹ کے الیکشن میں ووٹنگ خفیہ کروانے کے بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کے عمل پر بھی اعتراض کیا ہے اور کہا کہ یہ ایکٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کی رائے جو صدارتی ریفرنس کی صورت میں آئی تھی اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔

آئی ووٹنگ کے بارے میں کمیشن نے اپنے اعتراض میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخاب 2018 کے پائلٹ پروجیکٹ کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کر دی تھی لیکن اب تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

کمیشن کے مطابق وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے نادرا کے تیار کردہ آئی ووٹنگ سسٹم کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا۔ اس کی رپورٹ الیکشن کمیشن کو بھی دی گئی ہے۔ اس آڈٹ رپورٹ کے مطابق آئی ووٹنگ سسٹم میں مختلف خامیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جنہیں بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں اس آئی ووٹنگ سسٹم کو استعمال نہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

الیکٹرونک ووٹنگ مشین پر اعتراض برقرار

الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں کمیشن کا کہنا تھا کہ سات جون کو الیکٹرونک ووٹنگ مشین اور آئی ووٹنگ کے حوالے سے وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی نے بتایا کہ جولائی کے آخر میں مشین کا ماڈل الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان دو بین الاقوامی کمپنیوں کی تیار کردہ الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کا ڈیمو لے چکا ہے۔

حکومت نے ایکٹ کے سیکشن 231 میں بھی ترمیم کی جو انتخابی امیدواروں کی اہلیت کے متعلق ہے۔ البتہ الیکشن کمیشن نے اس پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

حکومت کیا کہتی ہے؟

کمیشن کے اعتراضات اپنی جگہ لیکن حکومت الیکٹرونک ووٹنگ مشین سمیت الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کا دفاع کر رہی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی ہے اور 35 نکات پر مبنی الیکشن کمیشن کے اعتراضات دور کیے گئے ہیں۔

بدھ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی خواہشات کے مطابق ماہرین نے مشین بنائی اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ ضمنی انتخاب الیکٹرونک ووٹنگ مشین سے ہوں گے۔

حکومت اور کمیشن میں اختلاف، مسئلہ حل کیسے ہو گا؟

اس معاملے پر اب حکومت اور الیکشن کمیشن کے بیانات واضح طور پر ایک دوسرے کے خلاف ہیں اور کمیشن نے آئینی اختیارات پر سوال اٹھا دیا ہے۔

ایسے میں بعض ماہرین آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات واضح انداز میں بتا دیے ہیں، اگر یہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہا تو کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو اس بارے میں ریفرنس بھجوائے۔

کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس حوالے سے حتمی اتھارٹی ہے اور اگر یہ معاملہ تصادم کی طرف گیا تو سپریم کورٹ کے فیصلے کو فوقیت حاصل ہو گی اور الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایت پر عمل کرنے کا پابند ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں بے شک الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پاس بھی ہو جائے لیکن الیکشن کمیشن نے آئین میں درج اپنے اختیارات کے مطابق چلنا ہے۔ اگر ایک شق دوسری سے متصادم ہو گی تو کمیشن اپنا فیصلہ کر سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG