رسائی کے لنکس

کراچی سے سنگل اسکرین سنیما ’غائب‘ ہونے لگے


اپنے کام اور زندگی کی فکر میں ڈوبے، محمد سلیم
اپنے کام اور زندگی کی فکر میں ڈوبے، محمد سلیم

اب جب سے ’ڈیجیٹل دور‘ آیا ہے بڑے بڑے پروجیکٹر بے کار ہوگئے۔ کمپیوٹر کی چھوٹی سی ہارڈ ڈسک پر پوری فلم سیو ہو جاتی ہے۔ سی پی یو سے کیمرہ کنیکٹ ہے جو پچاس ایم ایم کی اسکرین پر آپ کو فلم دکھا رہا ہے

پاکستان سے بہت تیزی کے ساتھ سنگل اسکرین سنیما غائب ہو رہے ہیں۔ اور ان کی جگہ لے رہے ہیں ’ملٹی پلیکس سنیما‘۔ ان دونوں سنیماؤں میں فرق صرف اسکرین کا ہے۔ سنگل اسکرین سنیما پر ایک وقت میں صرف ایک فلم دکھی جا سکتی ہے، مگر ملٹی پلیکس پر بیک وقت کئی فلمیں چلتی ہیں۔

کراچی میں سنگل سنیما ہالز کا رواج پاکستان بننے سے بھی پہلے سے قائم تھا لیکن ملٹی پلیکس سنیما کا رواج دوہزار دس میں اور اس کے بعد کے سالوں میں بہت تیزی سے پھیلا۔ یہ رواج اب بھی بہت تیزی سے جاری ہے اور جب سے بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی اجازت ملی ہے ان میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔

نشیمن سنیما کی سنگل اسکرین
نشیمن سنیما کی سنگل اسکرین

حالیہ سالوں میں نظر ڈالیں تو نیوپلیکس، سنے پلیکس، سنے پیکس، ایٹریم اور انہی جیسے جدید ترین درجنوں سنیما ملک کے مختلف شہروں میں بنے اور مشہور ہوئے، یہاں تک کہ پرانے یا سنگل اسکرین سنیما ہالز جو اسی کی دہائی سے شاپنگ سینٹروں اور رہائشی فلیٹس میں بدل رہے تھے ان پر روک لگی۔ لیکن آج ان سنگل اسکرینز کے فلم بینوں کو ملٹی پلیکس سنیما نے ’چھین‘ لی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج صرف گنتی کے سنگل اسکرین سنیما باقی رہ گئے ہیں۔ انہی میں سے ایک نشیمن سنیما بھی ہے جو ایم اے جناح روڈ کے متوازی سڑک پر گارڈن کے علاقے میں قائم ہے۔ اس سنیما ہال کی اپنی ہی ایک کہانی ہے۔

متروکہ پروجیکٹرز
متروکہ پروجیکٹرز

اس کہانی سے متعلق اس کے پروجیکٹر آپریٹر محمد سلیم نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو جو کچھ بتایا وہ بھی اپنے آپ میں ایک حقیقی کہانی ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے:

’’مجھے فلمیں دیکھنے اور فلمی دنیا کو قریب سے دیکھنے کا شوق آپریٹنگ کے پیشے میں لے آیا۔ لڑکپن کے دن تھے۔ اب 65سال کا ہوگیا ہوں۔ چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ اس پیشے اور شوق کے نام کرچکا ہوں۔ یہ پروجیکٹر جو اب متروکہ ہوگئے میرے ہی سامنے لگے تھے۔ پہلی فلم جو میں نے اپنے ہاتھ سے پروجیکٹر پر چلائی وہ ندیم، شبنم، نیر سلطانہ، صبیحہ خانم اور منور سعید کی ’پہچان‘ تھی۔ یہ 1975میں ریلیز ہوئی تھی۔ پہلی تنخواہ 80 روپے ماہانہ تھی جو بعد میں بڑھ کر ڈیڑھ سو روپے کردی گئی۔‘

ایک چھوٹی سی ٹیبل، کیمرہ اور ہارڈ ڈسک
ایک چھوٹی سی ٹیبل، کیمرہ اور ہارڈ ڈسک

وہ مزید بتاتے ہیں: ’’عمر کے اس حصے میں ہوں کہ کوئی اور پیشہ اختیار نہیں کرسکتا۔ لہذا، باقی ماندہ زندگی اسی حال میں کاٹ رہا ہوں۔ سنیما ہال میری آنکھوں کے سامنے ’پروان‘ چڑھا۔ اس کی ایک ایک چیز پر میرا لمس موجود ہے۔ یہاں کی ہر چیز کے عروج کا دور مجھے یاد ہے۔ ایک زمانے میں یہاں ٹکٹوں کے لئے لوگ گھنٹوں لائنوں میں کھڑے ہوا کرتے تھے۔ ٹکٹوں کے لئے لڑائی جھگڑے ہوتے تھے۔ ہر شخص چاہتا تھا کہ پہلے دن کا پہلا شو وہ دیکھے۔ چھٹی کے دن اور تہواروں کے موقع پر کئی کئی ہفتوں اور مہینوں کی ایڈوانس بکنگ ہوا کرتی تھی۔ سستے دور میں بھی مہنگے داموں ٹکٹ بلیک ہوتے دیکھے ہیں میں نے۔۔۔ مگر آج ٹکٹ گھر ویران پڑے ہیں۔ بکنگ کاؤنٹرز پر پرندوں نے گھونسلے بنالئے ہیں۔ ایک شو میں 25یا 30 فلم بینوں سے زیادہ نہیں ہوتے۔ ہفتے اتوار کو بھی ڈیڑھ سو یا دوسو سے آگے بات نہیں بڑھ پاتی۔‘‘

محمد سلیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ایک دور میں یہاں ائیرکنڈیشن بھی ہوا کرتا تھا اور سیٹیں بھی آرام دے اور جدید ہوا کرتی تھیں۔ اسی سنیما میں سینکڑوں فلموں کے پریمئیر شوز ہوئے اور بڑے بڑے فنکاروں نے اس میں شرکت کی۔ ان تقریبوں کی رونقیں اور خوشی کے منظر یاد کرتا ہوں تو ماضی کے سنہری دور میں کھو جاتا ہوں مگر سنیما ہالز کی رونقیں ختم ہوئیں تو جست یا لوہے کی بنی سیٹیں رہ گئیں کہ ان کی مرمت یا انہیں بار بار تبدیل کرنے کا خرچہ اب کوئی جیب سے برداشت کرنے کو تیار نہیں۔‘‘

فلم بینوں کا منتظر نشیمن سنیما کا ایک منظر
فلم بینوں کا منتظر نشیمن سنیما کا ایک منظر

انہوں نے ایک کونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ جو چرغی آپ کے سامنے زنگ کھائے پڑی ہے ایک دور میں اس پر ہم نئی سے نئی فلموں کی ریل لپیٹا کرتے تھے۔ ایک ریل کی چرغی ایک پروجیکٹر پرلگتی تھی اور دوسری دوسرے پروجیکٹر پر۔ جیسے ہی ایک چرغی کی ریل ختم ہونے لگتی تھی دوسرا پروجیکٹر آٹومیٹک طریقے سے شروع ہوجاتا تھا اور فلم بینوں کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ پروجیکٹر تبدیل ہوگیا ہے۔ اس دوران میں پہلے پروجیکٹر پر تیسری ریل لگا دیا کرتا تھا اور جیسے ہی دوسرے پروجیکٹر کی ریل ختم ہوتی تھی تو پہلے پروجیکٹر پر چڑھی تیسری ریل چلنے لگتی تھی۔ ایک فلم کم از کم انیس بیس یا کوئی کوئی اس سے بھی زیادہ ریل پرمشتمل ہوتی تھی ۔فلم کی طوالت ناپانے کا آلہ ہے یہ ’ریلیں ‘ ہواکرتی تھیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں محمد سلیم نے بتایا: ’’فلم انڈسٹری کے عروج کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ پروجیکٹر اندرون ملک ہی تیار ہوتے تھے ، آپ کو پہلی نظر میں لگے گا کہ شاید یہ پروجیکٹر جرمنی میں بنے ہوں کہ ان کی شیپ وہاں کے پروجیکٹرز سے ملتی جھلتی ہے لیکن آپ حیران ہوں گے کہ انہیں لاہور کی ایک کمپنی بنایا کرتی تھی ۔ یہ دونوں پروجیکٹر بھی اسی کمپنی کے تیار کردہ ہیں۔ ‘‘

کبھی یہ گیلری فلم بینوں سے کھچا کھچ بھری رہتی تھی
کبھی یہ گیلری فلم بینوں سے کھچا کھچ بھری رہتی تھی

اب جب سے ’ڈیجیٹل دور‘ آیا ہے بڑے بڑے پروجیکٹر بے کار ہوگئے۔ کمپیوٹر کی چھوٹی سی ہارڈ ڈسک پر پوری فلم سیف ہوجاتی ہے۔ سی پی یو سے کیمرہ کنیکٹ ہے جو پچاس ایم ایم کی اسکرین پر آپ کو فلم دکھارہا ہے۔ اس وقت پاکستانی فلم ’پرواز‘ دکھائی جارہی ہے جسے ایل سی ڈی کے ذریعے میں مانیٹر کررہا ہوں۔ ایک چھوٹی سی ٹیبل پر رکھی یہ دونوں چیزیں ہی پورا سنیماہال اور فلم چلارہی ہیں۔ بڑے پروجیکٹر کی ایک سائیڈ اس کام کے لئے کافی ہے پھر چرخی اور بڑے بڑے پروجیکٹر کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ، ’’نشیمن سنیما کا پروجیکٹر روم جہاں محمد سلیم نے زندگی کے چالیس سے زیادہ سال گزار دیئے وہاں آج اے سی نام کی کوئی چیز نہیں۔ چھت پر ہونے کی وجہ سے یہ کمرا انتہائی گرم ہوتا ہے جبکہ کمپیوٹر کے لئے بھی اے سی ضروری خیال کیا جاتا ہے لیکن اے سی کیا یہاں کولر تک نہیں۔ صرف ایک پرانا پنکھا چھت سے لٹک رہا ہے۔‘‘

کہتے ہیں کہ آمدنی کم ہو تو صاف ستھرائی کا خرچہ بھی کون برداشت کرے۔ آج کے دور کا نشیمن سنیما اس بات کی عملی تصویر ہے۔ دیواروں پر گرد کی کئی کئی طے جمعی ہوئی ہیں۔ وہ راستے جہاں سے لوگ فلم ختم ہونے کے بعد جوق در جوق نکلا کرتے ہوں گے وہاں اب مٹی اٹی پڑی ہے۔ بیکار سامان اور ناکارہ آلات سالوں سے جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں۔ داخلی دروازے پر جانے کب سے بڑا سا تالا پڑا ہوا ہے۔

پہلی منزل پر بنی کینٹین ویران ہے، کھڑکیوں کے شیشے ایک بار کیا ٹوٹے دوبارہ کسی نے انہیں بدلا ہی نہیں۔ لوہے کی چوکھٹیں اپنا اصل رنگ جانے کب کا بھولا بیٹھی ہیں۔

سنیما کے کچھ حصے روزانہ صاف ہوتے ہیں۔ لیکن، صرف اس حد تک کہ جو چند فلم بین آئیں تو انہیں سنیما ہال بالکل ہی ’بھوت بنگلہ‘ نہ لگے۔

ایم اے جناح روڈ کے عقب میں بنے گارڈن روڈ پر قائم اس علاقے میں ایک دور میں کئی سنگل اسکرین سنیماہالز ہوا کرتے تھے اور سب پر ہاؤس فل رہتا تھا مگر رفتہ رفتہ یہ سنیما ہالز یا تو شاپنگ سینٹرز میں تبدیل ہوگئے یا پھر رہائشی فلیٹس نے ان کی جگہ لے لی۔

شہر کے وسط میں اور گنجان آبادی میں ہونے کے سبب یہ سڑک ’سنیما ہالز کی مارکیٹ‘ہوا کرتی تھی۔ اس بھرمار کے سبب فلموں کے درجنوں ڈسٹری بیوٹرز کے دفاتر یہیں قائم تھے۔ فلم کی پروموشن اور اشتہاری مہم کی ذمے دار کمپنیوں کے دفاتر بھی اس علاقے کی بڑی رونق ہوا کرتے تھے۔ بڑی بڑی چرخیوں پر فلمی ریلوں کو اترتے چڑھتے ، کاٹتے جوڑتے اور از خود ’سنسر‘ کرتے لوگوں کو دیکھنا ایک عام بات تھی۔ ۔۔مگر اب یہ باتیں اور یادیں صرف ذہنوں میں زندہ رہ گئی ہیں اور وہ بھی ۔۔۔گنے چنے لوگوں کے ذہنوں میں۔ نئی عمر کے لوگوں کو تو اس کا پتہ بھی نہیں۔

ملک میں سنیما ہالز چلتے رہنے چاہئیں خواہ بھارتی فلموں کے سہارے ہی سہی۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور ڈائریکٹر اور پروڈیوسر سعید رضوی کہتے ہیں’’اس وقت سنیما انڈسٹری کی بقا ہماری لئے ضروری ہے کیوں کہ اگر سنیما ختم ہوگئے تو پاکستانی فلموں کا کیا ہوگا۔۔۔!! لہذا، سنیماؤں کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے ہمیں بھارتی فلموں کی نمائش کو بھی برداشت کرنا پڑے گا اور اس سے پہنچنے والے کچھ نقصانات بھی اٹھانا پڑیں گے۔‘‘

کراچی اور دیگر شہروں میں قائم جدید اور پرانے متعدد سنیما ہالز کے مالک اور فلم ڈسٹری بیوٹرز ندیم مانڈوی والا نے وی او سے بات چیت میں کہا ’’اگر پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش نہ ہوتی تو یہ جدید ترین سنیما ہالز بھی نہ بنتے۔ سنیما ہالز ہوں گے تو پاکستان میں فلمیں بھی بنیں گی اور فلم انڈسٹری کو بھی ترقی کے موقع ملیں گے۔‘‘

ای سنیماز
پاکستان میں ’ای سنیما‘ کا نام بالکل ہی نیا ہے۔ لیکن اس کے فوائد کو دیکھتے ہوئے ملک میں ای سنیماز کے قیام کی راہیں تیزی سے واہ ہو رہی ہیں۔ یہ وہ سنیما ہالز ہیںجہاں سیٹلائٹ سسٹم ٹیکنالوجی کے ذریعے بھارتی فلموں کو ڈاؤن لوڈ کیا جاتا ہے، تاکہ دونوں ممالک میں فلمیں بیک وقت ریلیز ہوسکیں۔ بھارت میں ای سنیما کامیاب ترین ثابت ہوا ہے تاہم پاکستان میں ابھی یہ متعارف ہو رہا ہے۔

اس سسٹم کے تحت صرف بھارت سے ہی نہیں پوری دنیا سے فلمیں کو ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ ایک نجی کمپنی نے سیٹلائٹ کے ذریعے بالی ووڈ اسٹارز کی فلمیں دکھانے کیلئے چند پاکستانی سینما گھروں میں سسٹم نصب کیے ہیں جبکہ اس تجربے کی کامیابی کے بعد مزید سینما گھروں میں اسی طرح کے سسٹم نصب کیے جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG