رسائی کے لنکس

اسلام آباد کی سیکیورٹی؛ ’مہنگائی اور بے روزگاری میں وارداتیں بڑھنا انوکھی بات نہیں‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

’’ہم اسلام آباد کو ایک محفوظ شہر سمجھتے تھے جہاں کسی بھی وقت آزادی کے ساتھ گھوم پھر سکتے ہیں لیکن اب ایک خوف نے ہمیں گھیر لیا ہے۔ اسلام آباد اب پہلے جیسا نہیں رہا۔‘‘

یہ الفاظ ہیں کراچی سے ملازمت کے سلسلے میں اسلام آباد آنے والے شکیل اختر کے، جو پچھلے پانچ سال سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔

شکیل اختر اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل وہ شاپنگ کرکے گھر آ رہے تھے کہ گھر کے قریب ہی دو موٹر سائیکلوں پر سوار کچھ افراد نے ان سے موبائل فون اور پیسے چھین لیے۔

وہ منظر یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کو کراچی یاد آ گیا اور وہ سوچنے لگے کہ کراچی اور اسلام آباد میں اب شاید کوئی فرق نہیں رہا۔

اسلام آباد کے مکین مستقل شکایات کرنے لگے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں اسٹریٹ کرائمز کے ساتھ ساتھ دیگر جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے شہر میں اب گلیوں اور گھروں کے باہر زیادہ تعداد میں سیکیورٹی گارڈز نظر آرہے ہیں۔

بعض مبصرین دو ہزار سے زائد کیمروں کا سیف سٹی منصوبہ ہونے کے باوجود شہر میں وارداتوں میں اضافے پر پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔

اسلام آباد کی سیکیورٹی کی صورتِ حال کی وجہ سے گزشتہ ہفتے متعدد ممالک کے سفارت خانوں کے سیکیورٹی حکام نے پولیس کے افسران سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں انہوں نے پولیس حکام کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔حالیہ عرصے میں سوئیڈن کی ایک خاتون سے زیادتی کے بعد غیر ملکی سفارت خانوں کی تشویش میں اضافہ زیادہ ہواہے۔

وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے ابتدائی پانچ ماہ میں چوری، ڈکیتی اور گاڑی چوری کی پانچ ہزار 466 وارداتیں ریکارڈ ہوئیں۔ جو گزشتہ برس کے اسی عرصے میں ایک ہزار 934 تھیں۔ شہر میں 295 گاڑیاں بھی چھینی جا چکی ہیں جب کہ اسی عرصے میں اغوا اور زیادتی کے 418 کیسز درج کیےگئےہیں۔

اسی طرح جنوری سے مئی کے دوران 75 قتل اور 146 اقدام قتل کی وارداتیں بھی ہوئی ہیں۔

اسلام آباد میں پولیس کی کارکردگی کے بارے میں نجی نشریاتی ادارے ’ڈان نیوز‘ سے وابستہ سینئر صحافی شکیل قرار کہتے ہیں کہ اسلام آباد پولیس کی اس وقت تمام تر توجہ صرف اور صرف سیاسی سرگرمیوں پر ہے ۔ ان کی عام شہریوں کی حفاظت پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ اوپر سے پولیس نے فیول کے اخراجات بچانے کے لیے پیٹرولنگ بھی محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے وارداتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔

شکیل قرار کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں پولیس حکام کی حالیہ تبدیلی کے بعد نئی ٹیم ابھی معاملات کا جائزہ ہی لے رہی ہے۔ نئے افسران کے آتے ہی انہیں تحریکِ انصاف کے دھرنے کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس وقت سے اب تک صرف اسی پر کام کررہے ہیں۔ البتہ اس دوران شہریوں کے ساتھ ہونے والی وارداتوں میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

اسلام آباد کے پوش سیکٹر ’ایف-ٹین‘ کے قریب فاطمہ جناح پارک میں حالیہ دنوں میں ایک نجی فوڈ کمپنی کے مینجر قاسم اعوان کو نامعلوم افراد نے گولی مار کر زخمی کیا ، جن کی دو دن اسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے بعد موت ہو گئی۔

قاسم اعوان شام کے وقت پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے کہ ان کے دوست کے مطابق مزاحمت پر نامعلوم ڈاکوؤں نے انہیں گولی مار دی، جس سے وہ شدید زخمی ہوئے۔ ان کی ہلاکت پر سوشل میڈیا پر بھی پولیس پر شدید تنقید کی گئی کہ سیف سٹی پراجیکٹ کے ہزاروں کیمروں کے باوجود اس واردات کے ملزمان کا کچھ پتا نہ چل سکا۔

اسلام آباد میں آب پارہ تھانے کی حدود میں ایک غیر ملکی خاتون کو اس کے دفتر کے گارڈ نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور فرار ہوگیا۔ پولیس اس ملزم کو بھی اب تک گرفتار نہیں کر سکی ہے۔

اسلام آباد اور سندھ کی پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی)کلیم امام نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جرائم میں اضافے کی وجوہات کا تعلق پولیس سے نہیں ہے بلکہ معاشرتی ڈھانچے سے ہے۔ حالیہ عرصہ میں ملک میں مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بےروزگاری کے سبب شہر میں وارداتوں میں اضافہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔

کلیم امام کا کہنا تھا کہ پولیس کا کام قانون پر عمل درآمد کرنا ہے لیکن بدقسمتی سے پولیس کو جرائم کے نئے طریقوں کے بارے میں تربیت فراہم نہیں کی جاتی۔ بہت سے ایسے طریقے جو اسلام آباد میں نہیں تھے اب عام ہوتے جارہے ہیں۔

سابق آئی جی کے مطابق موٹر سائیکل پر فون اور پرس چھیننے کی وارداتیں اب اسلام آباد میں بھی ہو رہی ہیں، اس کی روک تھام کے لیے پولیس کی استعداد بڑھانی پڑے گی۔ انہیں اس قسم کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے تربیت دینی ہو گی۔ پولیس کے خصوصی دستے تشکیل دیے جائیں، جو ایسی وارداتوں پر فوری کارروائی کریں۔

انہوں نے تجویز دی کہ جب بھی ایسی وارداتوں کے ملزم پکڑے جائیں، ان کو سزا دینے کا عمل مکمل کرایا جائے۔ایسے اقدامات کیے جائیں گے تو جرائم کم ہو سکتے ہیں۔

اسلام آباد کی پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسلام آبا د میں حالیہ عرصے میں کمان کی تبدیلی ہوئی ہے اور نئی چیزوں کو متعارف کرایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور کی طرز پر اسلام آباد میں ایگل اور فالکن اسکواڈ کو دوبارہ ری آرگنائز کرکے ڈولفن پولیس کی طرز پر اسکواڈ بنائے جا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے مزید ریسورسز اسلام آباد پولیس کو فراہم کیے جارہے ہیں جس کی مدد سے بالخصوص اسٹریٹ کرائمز کو کنٹرول کیا جائے گا۔

کیا اسلام آباد پہلے جیسا نہیں رہا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:51 0:00

غیرملکی سفارت خانوں کے سیکیورٹی افسران کی پولیس حکام سے ملاقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ سفارت خانوں کو سیف سٹی اسلام آباد کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور ان کے بعض معاملات میں تحفظات تھے جنہیں دور کیا گیا۔

پولیس پر ہونے والی تنقید اور جرائم کی روک تھام کے اقدامات کے بارے میں اسلام آباد پولیس کے آئی جی ڈاکٹر ناصر اکبر سے رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی گئی لیکن ان کی طرف سے رابطہ کرنے کے پیغام کے باوجود جواب موصول نہ ہو سکا۔

XS
SM
MD
LG