رسائی کے لنکس

کےٹو پر بھی کچرا؛ ’کچھ کوہ پیما جان بوجھ کر گندگی پھیلاتے ہیں‘


کوہ پیماؤں کے مطابق کبھی کبھی کوہ پیما مجبوری کی وجہ سے بھی سامان پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔
کوہ پیماؤں کے مطابق کبھی کبھی کوہ پیما مجبوری کی وجہ سے بھی سامان پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔

"رواں برس جولائی کے وسط میں جب میں دنیا کی دوسری بلند اور خطرناک ترین چوٹی کےٹو کو سر کرنے کے لیے ٹیم کے ہمراہ آگے بڑھ رہا تھا، تو میری نظر کیمپ-ون کے پاس کچرے کے ڈھیر پر پڑی، جسے دیکھ کر مجھے شدید مایوسی ہوئی۔"

یہ الفاظ پاکستان کے نامور کوہ پیما واجد اللہ نگری کے ہیں، جنہوں رواں برس دنیا بھر سے آئے ہوئے 140 کوہ پیماؤں کے ہمراہ کے ٹو کی چوٹی سر کی۔

واجد اللہ نگری نے وائس آف امریکہ سےگفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنے طور پر کوشش کی کہ کسی طرح کچرے کو اکٹھا کیا جائے، تاہم مقدار زیادہ ہونے کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔

واجد اللہ نگری کے مطابق صرف کیمپ-ون کے قریب انہوں نے 100 سے زائد ہیلمٹ، کین، فوڈ کے ڈبے، ریپرز، کوہ پیمائی کی اشیا، رسیاں اور دیگر کئی چیزیں دیکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تمام اشیا کی بدبو اتنی تھی کہ پل بھر کے لیے بھی اس کے قریب رہا نہیں جا سکتا تھا۔ اس صورتِ حال کو واجد اللہ نگری کے ساتھ ساتھ دیگر کوہ پیماؤں نے بھی محسوس کیا۔

نائلہ کیانی وہ واحد پاکستانی کوہ پیما ہیں، جنہیں پاکستان میں آٹھ ہزار سے بلند تین چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ گزشتہ برس 8035 میٹر بلند گاشر برم – ٹو جب کہ رواں برس گاشر برم –ون اور کےٹو کی چوٹیاں سر کیں۔

نائلہ کیانی نے وائس آف امریکہ سےگفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کیمپ ون اور ٹو پر کچرا بہت زیادہ تھا۔

ان کے مطابق زیادہ تر سامان، جو انہوں نے دیکھا، وہ ٹینٹ اور رسیوں کی شکل میں تھا۔ جو کوہ پیما چھوڑ گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ واش روم نہ ہونے کے باعث انسانی فضلہ بھی بہت زیادہ جمع ہو گیا تھا۔

نائلہ کیانی کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی اس طرح کا سامان کوہ پیما مجبوری کی وجہ سے بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، جیسے اگر کوئی کوہ پیما کیمپ-فور سے نیچے آ گیا ہے اور پھر بیماری یا کسی وجہ سے وہ دوبارہ اوپر نہیں جا سکا، تو ظاہر ہے اس کا سامان وہیں رہ جاتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ کوہ پیما جان بوجھ کر بھی وہاں گند گی پھیلاتے ہیں، جیسے ریپر پھینک دیے یا ٹینٹ چھوڑ کرچلے گئے۔

نائلہ کیانی نے واضح کیا کہ بنیادی ذمہ داری کوہ پیماؤں کی ہوتی ہے کہ وہ اپنا سامان واپس بھی لائیں۔ تاہم اگر ان سے کچھ رہ جاتا ہے، تو پھر اس کام کے لیے بنائے جانے والے ادارے سینٹرل قراقرم نیشنل پارک (سی کے این پی) کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سارے کچرے کو جمع کرکے تلف کرے۔

گلگت بلتستان کی حکومت نے رواں برس کچرے کی صفائی کے کچھ اقدامات کیے۔ سینٹرل قراقرم نیشنل پارک (سی کے این پی) کی ذمہ داریوں میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ بلند چوٹیوں اور پہاڑوں سے گندگی کے خاتمے کا کام بھی آتا ہے۔

محکمۂ سیاحت گلگت بلتستان کے مطابق رواں سیزن میں صرف کےٹو مہم کے لیے 200 سے زائد کوہ پیماؤں کو اجازت نامے جاری کیے گئے۔

کے ٹو پر کچرے کے بارے میں شہرت یافتہ نیپالی کوہ پیما، نرمل پرجا نے سوشل میڈیا پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ روان برس کیمپ-ٹو کی صورتِ حال اتنی خراب تھی کہ کیمپ کے اندر تک شدید بدبو محسوس کی جا سکتی تھی۔

سید یاسر عباس رضوی سینٹرل قراقرم نیشنل پارک کے ڈائریکٹر ماحولیات ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں کچرے کی مقدار نہ صرف پہاڑوں کی چوٹیوں بلکہ گلیشیئر ز پر بھی بڑھ رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مقامی اور غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں پاکستان کے شمالی علاقوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ شکایات موصول ہونے کے بعد صفائی کے لیے مختلف ٹیمیں ترتیب دی گئی تھیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ ہر سال پہاڑوں اور گلیشیئر پر کچرے کی مقدار ہزاروں کلو کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ اگر رواں برس کی بات کی جائے تو صرف کے ٹو کے کیمپ-ٹو، تھری اور فور سے 1610 کلو کچرا جمع کر کے بیس کیمپ پر لایا گیا۔

سید یاسر عباس رضوی کے مطابق کچرا اٹھانے کے لیے ادارے نے کل 31 پورٹرز کی خدمات حاصل کی تھیں۔ رواں برس بلند چوٹیوں سے 20 ہزار کلو کچرا جمع کرکے لایا گیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ ماحول کو بہتر رکھنے کے لیے گلیشیئر کی حفاظت بہت ضروری ہے کیوں کہ یہی تازہ پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

اُن کے بقول دنیا بھر میں عالمی حدت کا مسئلہ جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، اگر اس کو صحیح معنوں میں روکا نہ گیا تو آنے والے وقتوں میں آلودگی کے سبب تیزی سے پگھلتے گلیشیئر ز خطے میں شدید سیلاب کا سبب بن سکتے ہیں۔

یاسر عباس کے مطابق رواں برس مہم جوئی کے لیے آنے والوں کی تعداد 1600 سے زائد تھی۔ ایک مہم چھ سے سات افراد کی ٹیم پر مشتمل ہوتی ہے۔

دوسری جانب کوہ پیما واجد اللہ نگری کے مطابق کوہ پیماؤں کو صفائی کا خاص خیال رکھنا اسی کمیونٹی کی فلاح و بہبود میں ہے کیوں کہ یہاں کوئی اور نہیں آتا۔ ان کے بقول کوہ پیما برف کو ٹینٹ میں لا کر پگھلاتے ہیں جسے پینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ایک ایسے ہی واقعے کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ10 یا 15 دن تک وہ ایک ایسی جگہ سے پینے کے پانی کے لیے برف لا رہے تھے، جہاں بعد میں ایک لاش دریافت ہوئی۔ کچھ ساتھیوں نے بتایا کہ وہ لاش 10 سے 15 سالہ پرانی ہوگی۔

واجد علی نگری کے بقول ظاہر ہے ایسی خوراک کے ساتھ کوہ پیما شدید بیماری کا سامنا کر سکتے ہیں اور یہ سب کچھ انسانی صحت پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ گلگت بلتستان کے پہاڑوں پر انفرادی طور پر کوہ پیمائی ہوتی تھی۔ تاہم گزشتہ چند برسوں سے یہ سب کچھ کمرشل ہو گیا ہے، جس کے بعد کچرا بڑھنا شروع ہوا۔

انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اس صورتِ حال کا اگر کوئی مناسب حل نہ نکالا گیا، تو مستقبل میں کوہ پیماؤں کے لیے مزید خطرات پیدا ہو سکتے ہیں، جس کے بعد کےٹو کو سر کرنا صرف خواب ہی رہے گا۔

واجد اللہ نگری کے مطابق یہ صورتِ حال صرف کے ٹو تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ علاقے کے دیگر پہاڑ جیسے براڈ پیک، جی-ون، جی-ٹو، راکا پوشی اور دیگر بھی اسی کچرے کی زد میں آ چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG