رسائی کے لنکس

دو سال کا انتظار ختم ہوا، اب فکر یہ لاحق ہے کہ آگے کیا ہوگا؟


رابرٹ ملر نے وسیع نوعیت کی چھان بین مکمل کی جس دوران امریکی منقسم ہوتے گئے اور صدر ٹرمپ کے پہلے دو برس کے عہدہ صدارت پر اس کا سایہ پڑتا رہا۔

انتظار ختم ہوا۔ رابرٹ ملر نے اپنی رپورٹ حوالے کر دی ہے۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ سیاسی لے دے کا بازار لگنے والا ہے۔

خصوصی تحقیقاتی افسر نے صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت کے معاملے پر تفتیش مکمل کی اور جمعے کی شام گئے حتمی رپورٹ اٹارنی جنرل ولیم بَر کے حوالے کی۔ اُنھوں نے وسیع نوعیت کی چھان بین مکمل کی جس دوران امریکی منقسم ہوتے گئے اور صدر ٹرمپ کے پہلے دو برس کے عہدہ صدارت پر اس کا سایہ پڑتا رہا۔

ایک خط کے ذریعے، بر نے کانگریس کے قائدین کو بتایا ہے کہ اُنھیں ملر کی صیغہ راز کی نوعیت کی رپورٹ مل گئی ہے، اور، بقول اُن کے، ''ممکن ہے کہ میں ایک ہفتے کے اندر اندر خصوصی تحقیقاتی افسر کی رپورٹ کی خاص باتیں آپ کے سامنے پیش کر سکوں''۔

مرکزی سوال جس کا ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر، ملر نے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی یہ ہے آیا 2016ء کے صدارتی انتخابات کے دوران ٹرمپ یا اُن کے مشیروں نے روسیوں سے مل کر ڈیموکریٹ پارٹی کی ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، چونکہ ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی اور کلنٹن کے انتخابی مہم کے چیرمین کی اِی میلیں پریشان کن طریقے سے چوری ہوئیں؟ یا پھر ٹرمپ محض وہ خوش نصیب تھے جنھیں روس کی بدخواہی پر مبنی چالوں کا فائدہ ہوا؟ اور پھر بعد ازاں کیا صدر نے اپنے آپ کو اور اپنے سیاسی مشیروں اور معاونین کو بچانے کے لیے تفتیش کی راہ میں روڑے اٹکائے؟

جانچ کے نتیجے میں 37 افراد اور اداروں پر فرد جرم عائد ہوا، جن میں زیادہ تر روسی کارندے تھے، جو ابھی تک روپوش ہیں۔ سات افراد نے، جن میں ٹرمپ کے پانچ سابق ساتھی شامل ہیں، اقبال جرم کیا جب کہ پانچ کو قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔

مشہور مقدمات میں قومی سلامتی کے سابق مشیر، مائیکل فلن کا معاملہ بھی شامل ہے جنھوں نے روسی سفیر کے ساتھ گفتگو کے بارے میں ایف بی آئی کے ساتھ دروغ گوئی کا جرم مانا؛ اور صدر کی انتخابی مہم کے چیرمین، پال منافورٹ کو متعدد جرائم ثابت ہونے پر حال ہی میں سزا سنائی گئی ہے۔

رپورٹ حوالے کیے جانے سے چند ہی روز قبل تک یہ چمہ گوئیاں جاری تھیں کہ خصوصی تحقیقاتی افسر فرد جرم کی نوعیت کےاضافی الزامات کی نشاندہی کریں گے، لیکن محکمہ انصاف کو دی جانے والی رپورٹ سے پہلے ایسا کوئی اضافی قانونی اقدام سامنے نہیں آیا۔

رپورٹ حوالے کیے جانے کے بعد، ملر کی چھان بین ختم ہوچکی ہے۔ لیکن، صدر کے قانونی مسائل ابھی ختم نہیں ہوئے۔

حالیہ مہینوں کے دوران، ملر نے اپنی تفتیش کے کچھ حصے یو ایس اٹارنی کے دفتر کو دیے، جن میں نیو یارک کا سدرن ڈسٹرکٹ بھی شامل ہے، جہاں استغاثہ نے ٹرمپ کی تنظیموں اور ٹرمپ سے منسلک دیگر اداروں کے خلاف علیحدہ چھان بین کا آغاز کر دیا ہے۔

معاملہ ہے کیا؟

آیا ملر کی رپورٹ سے صدر کے موقف کو تقویت ملے گی، ان کا مواخذہ ہوگا یا کسی قسم کی الجھن کا شکار کوئی متبادل سامنے آئے گا؟ ابھی اس متعلق کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔

قانونی طور پر، برَ کو ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر وہ چاہیں تو وہ کانگریس یا عوام کے سامنے کسی دستاویز کا انکشاف کرسکتے ہیں۔

ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ خصوصی تحقیقاتی افسر کی تفتیش ''بلا وجہ کا بکھیڑا ہے''۔ وہ اس بات پر مصر ہیں کہ روسیوں کے ساتھ ان کی مبینہ گٹھ جوڑ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

ایسے میں جب صدر یہ کہہ چکے ہیں کہ مجھے اس پر اعتراض نہیں ہوگا اگر رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔ تاہم، لگتا ہے کہ رپورٹ کے کچھ حصے یا ساری رپورٹ جاری ہونے سے قبل وائٹ ہائوس، محکمہ انصاف، ٹرمپ کے ذاتی وکیل اور کانگریس کے درمیان قانونی بحث چھڑ جائے گی۔

محکمہ انصاف کے ضوابط اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ملر چیدہ چیدہ نکات پر مبنی ''راز دارانہ رپورٹ'' اٹارنی جنرل کو دیں، اور اٹارنی جنرل اس کے بارے میں کانگریس کو ''اطلاع دیں''۔ ملر کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی رپورٹ عوام الناس کے سامنے لائیں۔

وائٹ ہائوس کی پریس سیکریٹری، سارا سینڈرز نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ''اگلے اقدامات کا انحصار اٹارنی جنرل بَر کے حوالے ہو گا، اور ہم منتظر ہیں کہ قانون کی رو سے اگلا مرحلہ پورا ہو۔ وائٹ ہائوس کو خصوصی تحقیقاتی افسر کی رپورٹ کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی''۔

XS
SM
MD
LG