رسائی کے لنکس

میانمار کی فورسز سیکڑوں روہنگیا مسلمانوں کی قاتل ہیں، ایمنسٹی


میانمار کی سرحد عبور کر کے بنگلا دیش میں داخل ہونے والا روہنگیا مسلمانوں کا ایک بے یارومددگار قافلہ۔ 17 اکتوبر 2017
میانمار کی سرحد عبور کر کے بنگلا دیش میں داخل ہونے والا روہنگیا مسلمانوں کا ایک بے یارومددگار قافلہ۔ 17 اکتوبر 2017

ایسے شواہد موجود ہیں کہ کئی سو افراد کو صرف پانچ بستیوں میں ہلاک کیا گیا۔ جب کہ یہ واقعات شمالی ریاست راخین کی درجنوں دوسری بستیوں میں بھی پیش آئے جس کے پیش نظر ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب تک کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بدھ کے روز کہا ہے کہ میانمار کی سیکیورٹی فورسز نے مسلم اقلیت روہنگیا کو ملک سے بے دخل کرنے کی ایک منظم مہم کے دوران سینکڑوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا ۔

انسانی حقوق کے گروپ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ میانمار کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگائی جائے اور ان جرائم میں ملوث افراد کے خلاف مقدمے چلائیں جائیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روہنگیا کے خلاف اس سال 25 اگست سے فوجی مہم شروع ہونے کے بعد سے اب تک پانچ لاکھ 80 ہزار سے زیادہ پناہ گزین بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔

میانمار کی ریاست راخین میں روہنگیا مسلمانوں کا ایک گھر شعلوں کی لپیٹ میں ۔
میانمار کی ریاست راخین میں روہنگیا مسلمانوں کا ایک گھر شعلوں کی لپیٹ میں ۔

میانمار کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ یہ کارروائی مسلم شورش پر قابو پانے کے لیے کر رہی ہے۔ لیکن اقوام متحدہ اور دوسرے ادارے اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

روہنگیا مسلمانوں کے میانمار سے فرار نے انسانی ہمدردی کے ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر لی ہےاور وہاں کی بودھ حکومت کے خلاف عالمی مذمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 120 سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں سے انٹرویو کی بنیاد پر کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ان کی بستیوں کو گھیرے میں لے کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا، جان بچا کر بھاگنے والوں کو گولیاں ماریں اور ان کے گھروں کو نذر آتش کر دیا جس سے بوڑھے، معذور اور بیمار افراد جو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ نہیں سکتے تھے، اپنے گھروں میں ہی جل کر ہلاک ہو گئے۔

میانمار کی ریاست راخین میں روہنگیا مسلمانوں کی ایک جلی ہوئی بستی۔
میانمار کی ریاست راخین میں روہنگیا مسلمانوں کی ایک جلی ہوئی بستی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک اسکالر میتھیو ویلز نے، جنہوں نے بنگلہ دیش اور میانمار کی سرحد پر پناہ گزینوں کے ساتھ کئی ہفتے گذارے تھے، کہا ہے کہ 33 ویں لائٹ انفنڑی ڈویژن اور بارڈر پولیس کے دستے ان کارروئیوں میں ملوث رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کئی پناہ گزینوں کی کمر پر گولیوں کے زخم ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں اس وقت گولیاں ماری گئیں جب وہ بھاگ رہے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ کئی سو افراد کو صرف پانچ بستیوں میں ہلاک کیا گیا۔ جب کہ یہ واقعات شمالی ریاست راخین کی درجنوں دوسری بستیوں میں بھی پیش آئے جس کے پیش نظر ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب تک کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سیٹلائٹ تصویروں اور عینی شاہدین کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بستیوں کے اندر روہنگیا مسلمانوں کے گھروں اور مساجد کو جلایا گیا جب کہ ان سے کچھ فاصلے پر واقع غیر مسلموں کے گھر مکمل طور پر محفوظ رہے۔

عینی شاہد وں اور پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کی جانب سے ڈرون سے حاصل کی گئی ویڈیوز یہ ظاہر کرتی ہیں کہ تشدد سے بچنے کے لیے روہنگیا مسلمان مسلسل میانمار سے فرار ہوکر بنگلہ دیش میں داخل ہو رہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پناہ گزینوں میں تقریباً 60 فی صد تعداد بچوں کی ہے۔ یونیسیف نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ اگر اسے فوری طور پر مزید فنڈز یہ دیئے گئے تو وہ روہنگیا پناہ گزین بچوں کو علاج معالجہ اور تحفظ فراہم نہیں کر سکے گا۔

میانمار کے حکام کا کہنا ہے کہ 25 اگست کو روہنگیا کے ایک شورش پسند گروپ نے میانمار سیکیورٹی فورسز کی 30 چوکیوں پر حملے کر کے درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔ لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ میانمار روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا صفایا کر رہا ہے۔

بودھ اکثریتی حکومت سن 1982 سے روہنگیا اقلیت کو میانمار کی شہریت دینے سے انکار کر رہی ہے۔ اور انہیں ملک میں آباد سرکاری طور پر تسلیم شدہ 135 نسلی گروپوں کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔ روہنگیا کی حیثیت ایسے افراد کی بن چکی ہے جن کا دنیا بھر میں کوئی وطن نہیں ہے۔ وہ طویل عرصے سے بودھ اکثریتی ملک میں نسلی تعصب اور تشدد کا سامنا کر رہے ہیں ۔ بودھ حکومت انہیں بنگالی قرار دیتی ہے جو ان کے بقول غیر قانونی طور پر وہاں آ گئے تھی جب کہ روہنگیا میانمار میں کئی نسلوں سے مسلسل رہ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG