رسائی کے لنکس

انسداد دہشت گردی میں پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے: جان مکین


سینیٹر جان مکین (فائل فوٹو)
سینیٹر جان مکین (فائل فوٹو)

انہوں نے اپنے مضمون میں کہا کہ "قطع نظر اس بات کے  کہ دہشت گرد کہاں چھپتے ہیں جتنا جلد پاکستان، امریکہ، اور افغانستان اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف  مل کر جنگ لڑتے ہیں یہ (ان) ملکوں، خطے اور دنیا کے لیے بہتر ہو گا"۔

امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جان مکین نے پاکستان، افغاستان اور امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کر کے اپنی توجہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی پر مرکوز کریں۔

ایک موقر بین الاقوامی اخبار 'دی فنانشل ٹائمز' میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سینیٹر مکین نے یہ موقف اختیار کیا کہ "پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں امریکی مقاصد کا حصول بہت ہی مشکل ہو جائے گا"۔

انہوں نے اپنے مضمون میں کہا کہ"قطع نظر اس بات کے کہ دہشت گرد کہاں چھپتے ہیں جتنا جلد پاکستان، امریکہ، اور افغانستان اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف مل کر جنگ لڑتے ہیں یہ (ان) ملکوں، خطے اور دنیا کے لیے بہتر ہو گا"۔

رواں ماہ کے اوائل میں سینیٹر جان مکین کی سربراہی میں ایک وفد نے پاکستان اور افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ جہاں انہوں نے دونوں ملکوں کی عسکری قیادت اور حکومتی عہدیداروں سے ہونے والی ملاقاتوں میں خطے کی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے بارے میں بات کی۔ پاکستان میں قیام کے دوران امریکی وفد نے دہشت گردوں سے صاف کروائے گئے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کا بھی دورہ کیا۔

انہوں نے اپنے مضمون میں مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے اس دورے کے بعد وہ اس بات کی قائل ہوگئے ہیں کہ امریکہ کے افغانستان میں اب بھی وہی مقاصد ہیں جو 2001 میں تھے جن کا محور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنا اور انہیں شکست دینا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ ان دہشت گردوں کو شکست دینے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مزید تعاون ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کی حکمت عملی ناصرف افغانستان میں امریکی فوجیوں کی سکیورٹی اور اس کے مشن کے لیے نہایت اہم ہے بلکہ یہ پاکستان اور امریکہ کی قومی سلامتی اور خطے کی سلامتی کے لیے بھی اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد کو مشروط کرنا اور کانگریس کی طرف سے دفاعی سامان کی فروخت کے لیے زر اعانت کی منظوری نا دینے جیسے اقدامات دونوں ملکوں کے درمیان موجود تناؤ میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان اور دیگر حالیہ مشکلات کے باوجود امریکہ اور پاکستان کے رہنما (اپنے باہمی تعلقات سے متعلق) کسی شک و شبہ کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ ( اس امر کے) باوجود انسداد دہشت گردی، جوہری سلامتی اور علاقائی استحکام میں ان کے بہت ہی فوری اور مشترکہ مفاد وابستہ ہیں۔

سینیٹر جان مکین نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ایک طویل عرصے تک امریکہ نے (پاکستان کے ساتھ اپنے) باہمی تعلقات کو افغانستان کے تناظر میں ہی دیکھا ہے " (تعلقات میں) حقیقی پیش رفت کے حصول کے لیے امریکہ کو پاکستان کے استحکام اور معاشی ترقی کے حوالے سے پائیدار عزم کو واضح کرنا ہوگا"۔

سینیٹر مکین نے پاکستان پر بھی زور دیا کہ وہ "افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرے جو اس کی سرحدوں کے اندر سے کارروائیاں کرتے ہیں، اس کے پڑوسیوں پر حملہ کرتے ہیں اور امریکی فورسز کو ہلاک کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ پاکستان کے لیے مشکل ہو گا۔ اس کے لیے سیاسی عزم کے ساتھ جان و مال کی قربانی بھی دینی ہو گی۔ اسی لیے ملک میں ایسے (لوگ) بھی موجود ہیں جو انتہا پسندی کو شکست دینے کی فیصلہ کن کوششوں کے خلاف ہیں"۔

سینیٹر جان مکین نے کہا کہ یہ سوچ رکھنے والوں نے پاکستانی رہنماؤں کو کالعدم تحریک طالبان کے خلاف کارروائی نا کرنے کا مشورہ دیا تھا تاہم انہوں نے پشاور اسکول پر دہشت گرد حملے کے بعد ان کے خلاف کامیابی سے کارروائی کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ "شمالی وزیرستان میں میران شاہ کے دورے کے دوران انہوں نے شہر کا وہ بازار بھی دیکھا جہاں کبھی بم بنانے والی فیکٹریاں، اسلحہ ڈیلرز اور دہشت گرد گروپوں کے دفاتر تھے" ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ "پاکستانی فوجیوں کی کارروائیوں کی وجہ سے یہ موت کا بازار ختم ہو گیا ہے"۔

سینیٹر مکین نے لکھا کہ پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اس کے عزم پر"شک کرنے والوں کو دوبارہ غلط ثابت کر سکتا ہے" اور اس کے لیے اسے اسی طاقت کے ساتھ اس خطے میں افغان، بھارتی شہریوں اور امریکی فورسز کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف کارروائی کرنی ہو گی جس طرح اس نے پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کی ہے۔

جان مکین نے آخر میں لکھا کہ "اگر (پاکستان) اپنی سرزمین پر موجود تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو پاکستان امریکہ کو اس لڑائی میں تعاون اور پائیدار اسٹریٹجک شراکت داری کو آگے بڑھانے پر تیار پائے گا"۔

XS
SM
MD
LG