رسائی کے لنکس

مسلح افواج پرتنقیدی رپورٹنگ کو جرم قرار نہ دیا جائے: رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کا پاکستان سے مطالبہ 


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے پاکستان کے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلح افواج پر تنقید کو جرم قرار دینے کے منصوبوں کو فوری طور پر روک دیں، کیونکہ اس سے صحافتی آزادی کو شدید خطرہ لاحق ہو گا۔

آر ایس ایف نے کہا ہے کہ مجوزہ نئے قانون کے الفاظ انتہائی مبہم ہیں اور اس کے اثرات رواں سال میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

فوج پر تنقیدی تبصرے پر پانچ سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے، جس کا سامنا صحافیوں کو مجوزہ قانون سازی میں کی جانے والی ترمیم کے تحت ہو سکتا ہے۔

وفاقی حکومت یہ ترمیمی مسودہ منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

پینل کوڈ میں ترمیم کے مسودے میں، جسے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے دیکھا ہے، ایک نیا سیکشن اے 500 تجویز کیا گیا ہے جس کے ذریعے عدلیہ یا افواج پاکستان یا اس کے کسی رکن کی تضحیک یا اسکینڈلائز کرنے کے ارادے سے دیا جانے والا بیان دینا، یا اسے شائع کرنا یا اسے پھیلانا جرم ہو گا جس پر پانچ سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کا اطلاق ضابطہ فوجداری پر بھی پڑے گا جس میں شامل کی جانے والی ایک نئی شق سے پولیس کسی بھی شخص کو پولیس وارنٹ دکھائے بغیر گرفتار کر سکے گی اور اگر اسے جیل بھیج دیا گیا تو عدالت کے باہر تصفیِے پر بھی ضمانت یا رہائی سے انکار کیا جا سکے گا۔

آر ایس ایف کے ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیئل بسٹرڈ نے کہا ہے کہ ہم وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس مجوزہ ترمیم کو فوری طور پر ترک کر دیں، جس سے ہر قسم کے مسائل پیدا ہوں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس میں موجود قانونی مسودے میں ابہام سے پولیس کو صحافیوں کے خلاف حد سے زیادہ انتظامی اختیارات مل سکتے ہیں اور یہ قانون واضح طور پر صرف مسلح افواج کے بارے میں کسی بھی قسم کے تبصرے کو روکنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانونی ترمیم ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب پاکستان میں آنے والے مہینوں میں عام انتخابات متوقع ہیں اور ایسی ترمیم کو اپنانے سے جمہوری عمل کی راہ میں سنگین رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔

مجوزہ ترمیم کے بارے میں انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ کے سربراہ محمد آفتاب عالم نے کہا ہے کہ انہیں حکومتی اداروں کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

انہوں نے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مجوزہ ترمیم پاکستان میں ہتک عزت اور آزادی اظہار پر مزید قدغن لگانے کے لیے جاری مہم کا حصہ لگتی ہے۔

محمد آفتاب عالم نے کہا کہ یہ قانون منظور ہو جانے کی صورت میں عام طور پر اظہار رائے کی آزادی اور خاص طور پر صحافتی آزادی پر بہت منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG