رسائی کے لنکس

رپورٹرز ڈائری: بھارت سے پیدل حج کے سفر پر نکلنے والے شہاب پاکستان سے کیا یادیں لے کر گئے؟


شہاب نے کہا کہ اُنہوں نے بھارت کی سات ریاستیں پار کیں اور انہیں محبت بھی ملی اور سیکیورٹی بھی۔
شہاب نے کہا کہ اُنہوں نے بھارت کی سات ریاستیں پار کیں اور انہیں محبت بھی ملی اور سیکیورٹی بھی۔

بھارت سے پیدل حج کے سفر کا آغاز کرنے والے شہاب چتور کو واہگہ بارڈر کے ذریعے لاہور کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت ملی تو سوشل میڈیا کے اس ہیرو کے انٹرویو کی کوشش ہم نے بھی شروع کی۔

اطلاعات کے مطابق شہاب نے منگل کی دوپہر دو بجے مناواں سے ہوتے ہوئے بذریعہ لاہور رنگ روڈ سے ملحقہ سڑک کے راستے لاہور ایئر پورٹ پہنچنا تھا۔

ہم نے جی ٹی روڈ پر مناواں کے قریب تقریباً دو بجے پڑاؤ ڈال لیا۔ سوچا تو یہی تھا کہ اگر شہاب مل گئے تو اُن کے ساتھ چلتے چلتے کیمرے پر کُچھ شاٹس بھی بنا لیں گے اور پھر راستے میں کوئی اچھا بیک گراونڈ دیکھ کر انٹرویو بھی کرلیں گے۔ لیکن پونے تین بجے تک انتظار کرنے کے بعد خیال آیا کہ کہیں شہاب دو بجے سے پہلے تو اپنے سفر کا آغاز نہیں کرچُکا۔ تو مناسب خیال کیا کہ ایک بار رنگ روڈ سے ایئرپورٹ کا چکر لگا لینا بہتر ہے۔

ارد گرد نظریں جمائے مناواں سے ایئرپورٹ تک کا سفر کیا لیکن اپنے سامان کے ساتھ پیدل چلتا کوئی شخص نظر نہ آیا۔

ایئرپورٹ کی حدود میں پہنچے ہی تھے تو وہاں پہلے سے ہی مقامی ٹیلی ویژن کی ٹیم کو بھی شہاب کا منتظر پایا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ بھی شہاب کے منتظر ہیں لیکن ابھی یہاں سے کسی کا گزر نہیں ہوا۔

کُچھ دیر مشترکہ انتظار کے بعد فیصلہ کیا کہ ایئرپورٹ پر پہلے سے موجود مذکورہ ٹیم یہیں مورچا سنبھالے رکھے جب کہ ہم ایک بار پھر رنگ روڈ کا چکر لگا کر آتے ہیں کہ شائد اب کی بار وہ ہمیں راستے میں کہیں دکھائی دے جائے۔

اس بار گاڑی رنگ روڈ کی بجائے ملحقہ سڑک پر دوڑائی۔ برکی اور صدر کو جانے والے چونگی دوگیج چوک پر کھڑے ہوکر کُچھ دیر آس پاس کے حالات کا جائزہ لینا شروع کیا۔

دس منٹ ہی گزرے تھے کہ ہمارے پاس ایک گاڑی آکر رُکی، جس میں ایک شخص اپنے پانچ سالہ بچے کے ساتھ سوار تھا اور رُکتے ہی سوال کیا کہ کیا آپ نے یہاں سے کسی بھارتی لڑکے کو پیدل جاتے دیکھا ہے۔ اُس نے کاندھوں پر بیگ بھی ہوگا۔ میرے ساتھ موجود کیمرہ مین نے اُسے کہا کہ فی الحال تو نہیں دیکھا۔

لیکن اسی سوال نے ہمارے ٹوٹتے ارادے کو طاقت دی اور ہم جو کہیں یہ سوچ چُکے تھے کہ شائد آج اُس نے یہاں سے نہ گزرنا ہو یا شائد وہ گاڑی میں بیٹھ کر ایئرپورٹ داخل ہوگیا ہو، ایسے تمام خیالات ایک بار پھر ہوا ہوئے اور ہم نے دوبارہ سفر باندھا اور اس بار دو کلومیٹر ہی چلے تھے کہ سامنے سے ایک ہجوم آتا دکھائی دیا۔ چند لڑکے اور ایک رنگ برنگی چھتری۔ فوراً سے گاڑی روکی اور ہجوم میں شامل ہوگئے۔

یہ شہاب ہی تھے۔ شہاب کا بیگ اُس کے ساتھ چلنے والے ایک نوجوان کے کاندھے پر تھا اور اُسی لڑکے نے شہاب کے لیے چھتری بھی تھامی ہوئی تھی۔

سلام دُعا کے بعد میرے ساتھی تو کیمرے پر اُن کے شاٹ بنانے میں مصروف ہوگئے۔ اس سے پہلے کے میں شہاب کے تیزی سے آگے بڑھتے قدموں سے قدم ملاتی اور اْن کے ساتھ موجود یوٹیوبرز کو پار کر کے اُن تک پُہنچ پاتی، میرے ساتھی نے شہاب سے انٹرویو کے لیے پوچھا، جس پراُنہوں نے ہاں میں سر ہلایا۔

اُن کا مثبت انداز دیکھ کر میں مائیک ہاتھ میں تھامے آگے بڑھی تو اُن کے ساتھ سادہ لباس میں ملبوس ایک شخص نے سب کو اُن کے گرد سے ہٹانا شروع کردیا اور کیمرے بند کرنے کو کہنے لگے۔

چند ہی لمحوں میں جو یوٹیوبرز شہاب کے گرد کیمرے لیے جمع تھے اور اپنے اپنے وی لاگز بنا رہے تھے، وہ وہاں سے غائب ہونے لگے یا چند نے اپنے موبائل واپس اپنی جیبوں میں رکھ لیے۔

ہمیں بھی کیمرہ بند کرنے کو کہا گیا۔ اب چونکہ ہماری گاڑی پیچھے رہ گئی تھی تو ہم نے ایئرپورٹ تک شہاب کے ساتھ چلنے کو بہتر جانا کہ شاید بات چیت کے بعد اُس سے بات کرنے کی اجازت مل جائے۔ لیکن اُس کے ساتھ بطور سیکیورٹی چلنے والے افراد ہمیں اُس کے قریب بھی آنے نہیں دے رہے تھے۔

اسی دوران کیمرے پر موجود میرے ساتھی اُن کی ہمیں درکار فوٹیج تو بنا چُکے تھے۔ لیکن چونکہ ہمارے ساتھ گاڑی موجود نہ تھی تو اس لیے کیمرہ ہاتھ میں رکھنا مجبوری تھی۔ جس پر یہ سمجھے بغیر کہ کیمرہ ریکارڈنگ پر ہے یا نہیں، بظاہر سیکیورٹی دینے والا شخض بارہا منع کرتا رہا کہ ویڈیو نہ بنائیں۔ اس دوران ہمارا کیمرہ بند ہی رہا۔

اسی دوران ہمیں وہ شخص بھی شہاب سے ملتے دکھائی دیے جنہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ ہم سے پوچھا تھا کہ کیا ہم نے کسی بھارتی مُسافر کو یہاں سے گزرتے دیکھا ہے۔

چلتے چلتے شہاب سے ملنے کے بعد اُنہوں نے شہاب کو حج کا سفر پیدل کرنے پر مبارک باد دی اور وہاں پہنچنے پر اُن کی جانب سے دُعا کی درخواست بھی کی گئی۔

ہمارے پوچھنے پر اُنہوں نے بتایا کہ جب سے شہاب پیدل حج پر جانے کی نیت سے بھارت سے روانہ ہوا ہے۔ وہ اور اُن کی فیملی اُنہیں سوشل میڈیا پر فالو کررہی ہے اور اب جب اُنہیں پتا چلا کہ شہاب کو لاہور کا ٹرانزٹ ویزہ مل گیا ہے تو وہ اُن کو دیکھنے یہاں پہنچے ہیں، تاکہ اُن کا استقبال کرسکیں اور اُنہیں اپنی نیک تمناؤں کے ساتھ اُن کی اگلی منزل کی جانب روانہ کرسکیں۔

چونکہ ہمیں احساس تھا کہ شہاب کے ساتھ چلنے والے افراد کیمرے کے ساتھ ہماری موجودگی سے ناخوش ہیں تو ہم نے تھوڑا تیز چل کر ایئرپورٹ جانے کو ترجیح دی کہ شائد وہاں دیگر میڈیا کو دیکھ یہ بات کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ چونکہ موقعے پر ہمارے علاوہ موجود دو میڈیا ٹیمز ایئرپورٹ کی حدود شروع ہونے سے پہلے ہی اپنے اپنے کیمروں کے ساتھ موجود تھیں تو شہاب اور اُن کے ساتھ آنے والے افراد دور ہی کھڑے ہوگئے۔

کافی دیر رُکنے کے بعد ایک موٹر سائیکل پر دو افراد پیغام رساں بن کر آئے اور میڈیا کو اپنے کیمرے ہٹانے کا کہنے لگے، جس پر ہماری طرف سے کیمرے بند تو کردیے گئے لیکن اُنہیں یقین نہ آسکا اور شہاب کو ایک دائرہ بنا کر وہاں سے گزارے جانے لگا۔

ہم نے بغیر کیمروں کے اُن سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن بغیر رُکے اُن کے ساتھ موجود شخص نے یہ کہنا شروع کردیا کہ شہاب کسی قسم کا انٹرویو نہیں دے سکتے اور نہ ہی کوئی اُن کے قریب آسکتا ہے۔ بطور خاتون صحافی میں نے اُس شخص سے کہا کہ میرے پاس تو کیمرہ نہیں، بات کرنے میں کیا حرج ہے۔

صرف چند سوالات ہیں۔ آپ بات تو سُن لیں لیکن بغیر بات سُنے اُنہوں نے سخت لہجہ اپنائے رکھا۔

چند قدم میڈیا کے مزید ساتھ چلتے چلتے اور چند درخواستوں کے بعد اُنہوں نے شہاب کو بولنے کی اجازت دے دی لیکن صرف دو منٹ کے لیے۔

شہاب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں دو جون 2022 کو کیرالہ سے اپنے ڈسٹرکٹ ملاپ پورم سے نکلا۔ تین مہینے میں تین ہزار تین سو کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد امرتسر واہگہ بارڈرز پنجاب تک پہنچا۔ میں چار مہینے نو دن وہاں رُکا۔ پہلے معلوم ہوا تھا کہ پاکستان سیاحتی ویزہ دینے کے لیے تیار ہے، لیکن بعد میں وہ تو نہیں ہوسکا۔ پھر میں نے ٹرانزٹ ویزہ کے لیے اپلائی کیا۔ ایجنسیوں کی تحقیقات اور سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد تصدیق کے لیے بھیجا۔ پہلے کہا کہ تین مہینہ انتظار کرو لیکن چار مہینہ نو دن بعد ٹرانزٹ ویزہ ملا۔

اُنہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں پاکستان اور بھارت کا ڈپلومیٹک تعلقات کا مسئلہ ہے۔ اس لیے اُنہیں سرحد پار کرنے کے لیے انتظار کرنا پڑا۔ پاکستان میں آمد کے بعد اُنہوں نے یہاں آنے کے تجربے کو خوش آئند کہا۔

شہاب نے کہا کہ اُنہوں نے بھارت کی سات ریاستیں پار کیں اور مکمل سیکیورٹی وہاں بھی اُن کے ساتھ رہی۔ کیرالہ، کرناٹکا، گووا، مہاراشٹر، گجرات، راجھستان اور پنجاب اور پھر لاہور آنے کے بعد بھی سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور یہاں محبت بھی ملی اور سیکیورٹی بھی۔

فرانس سے بذریعہ سڑک پاکستان آنے کی دلچسپ کہانی
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:49 0:00

اُنہوں نے حج واپسی پر بحری جہاز سے بھارت واپسی کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔

شہاب سے ابھی دو سوال ہی ہو پائے تھے کہ اُن کے ساتھ موجود شخص نے انٹرویو ختم کرنے کا کہا یہاں تک کہ میرے ساتھی کیمرہ مین کو کیمرہ توڑنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر اب آپ کا کیمرہ دیکھا تو توڑ دیں گے۔

اُس کے بعد جب تک ہم اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر وہاں سے چل نہیں پڑے، شہاب کو ایئر پورٹ پُل کے ساتھ چھتری کے آسرے میں چُھپا کر کھڑا کردیا گیا اور ہمارے جانے کے بعد ہی اُنہیں ایئرپورٹ کی جانب سفر رواں رکھنے کی اجازت ملی۔

اس تمام صورت حال کو وہ لوگ بھی دیکھ رہے تھے جو شہاب کو اپنی نیک تمناؤں میں حج کے لیے رُخصت کرنے آئے تھے۔ اُن میں سے ایک وہاب نامی شخص کا کہنا تھا کہ وہ سوچ رہے ہیں کہ ایک مہمان پاکستان سے کیا یاد لے کر رُخصت ہوا ہوگا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ہم لاہوری بہت مہمان نواز ہیں لیکن مجھے نہیں پتا کہ ایک حج کے سفر کی نیت سے نکلا ہوا شخص جسے بہت سے مُلکوں سے گزرنا ہے، یادیں بنانی ہیں، لوگوں سے ملنا ہے۔ پاکستان کے اپنے اس مختصر سفر کے بعد اُس کے پیدل سفر پر کیا اثر پڑے گا؟۔ اُس کی پیدل جانے کی پلاننگ کا بجٹ کُچھ اور ہوگا جبکہ اب اُسے ہوائی جہاز سے کسی مُلک پہنچایا جائے گا تو اُس کے بجٹ پر اثر پڑے گا۔

اُنہوں نے کہا کہ بطور ایک عام پاکستانی اگر میں ان خدشات کا اظہار کرسکتا ہوں تو شہاب یہاں سے کیا یاد لے کر گیا ہوگا۔

ماضی میں حج کے پیدل تصور کی یاد نے شہاب چتور کو یہ حوصلہ دیا تھا کہ وہ بھی اپنی زندگی کا پہلا حج اسی طرز پر کریں۔ لیکن پیدل چلنے سے زیادہ مُشکل اُن کے لیے اس سفر کی اجازت لینا تھا۔

سب سے پہلے تو بھارتی حُکام سے اجازت طلب کرنے میں ہی اُنہیں چھ ماہ کا عرصہ لگا۔ اُس کے بعد پاکستان آنے کے لیے چار ماہ نو دن کا انتظار اور اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران اور عراق اُنہیں اپنی سرحدیں پار کرنے کے لیے کتنا انتظار کرواتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG