رسائی کے لنکس

'ہندو مسلم اتحاد' سے متعلق آر ایس ایس سربراہ کے بیان پر بھارت میں نئی بحث


موہن بھاگوت (فائل فوٹو)
موہن بھاگوت (فائل فوٹو)

بھارت کی ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کے ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور مسلمانوں کے ساتھ اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے بیان کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سرپرست سمجھی جانے والی جماعت کے رہنما کا یہ بیان ملک میں مبینہ طور پر بی جے پی کی گرتی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موہن بھاگوت کا یہ بیان خوش آئند ہے اور اس سے اقلیتوں کے تحفظات دُور ہو سکتے ہیں۔

اتوار کو نئی دہلی میں ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے موہن بھاگوت نے ملک میں مذہبی ہم آہنگی کے قیام پر زور دیا اور کہا کہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں نہ تو ہندوؤں کی بالادستی قائم ہو سکتی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کی۔

مذکورہ تقریب کا اہتمام قائم آر ایس ایس کی شاخ ’مسلم راشٹریہ منچ‘ کی جانب سے کیا گیا تھا۔

موہن بھاگوت کا کہنا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کے بجائے بات چیت سے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔

ان کے بقول ملک کی ترقی ہندو مسلم اتحاد کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذہب سے قطع نظر سب کا 'ڈی این اے' ایک ہے۔ ہم سب کے اسلاف ایک ہی تھے۔ عبادت کے مختلف طریقوں کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔

موہن بھاگوت نے گائے کے تحفظ کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کی ہلاکت کے واقعات پر کہا کہ گائے ہمارے لیے مقدس ہے لیکن اس کے نام پر کسی کی جان نہیں لی جا سکتی۔

بعض تجزیہ کار اس بیان کو مبینہ طور پر مودی حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
بعض تجزیہ کار اس بیان کو مبینہ طور پر مودی حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ اس ملک میں مسلمان نہیں رہ سکتے تو وہ ہندو نہیں ہے۔

'آر ایس ایس' کے سربراہ نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اس خوف سے باہر آئیں کہ بھارت میں اسلام خطرے میں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قوم پرستی اتحاد کی بنیاد ہونی چاہیے۔

موہن بھاگوت نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ وہ جو کچھ کہنے جا رہے ہیں اسے سیاسی تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ وہ اس پروگرام میں نہ تو امیج بنانے کے لیے شریک ہو رہے ہیں اور نہ ہی اس کا ووٹ بینک کی سیاست سے کوئی تعلق ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ 'آر ایس ایس' سیاست میں نہیں ہے اور اسے اپنی ساکھ کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔

لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کی یہ تقریر مبینہ طور پر مودی حکومت کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دینے کے لیے تھی۔

تجزیہ کاروں کے بقول کسانوں کی تحریک، کرونا وبا سے نمٹنے میں حکومت کی مبینہ ناکامی اور بعض دیگر امور پر پورے ملک میں حکومت پر شدید تنقید ہو رہی ہے اور بی جے پی کے حامی افراد بھی حکومت پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ لہٰذا موہن بھاگوت کے بیان کو اس سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) سے وابستہ تجزیہ کار ابھے کمار مشرا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آر ایس ایس اپنے قیام کے روز اول سے ہی سیاست کرتی آئی ہے۔ بی جے پی اس کی سیاسی شاخ ہے اور 'آر ایس ایس' اس کے توسط سے ملک پر حکومت کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کی ہلاکت کی مخالفت کرتے ہیں لیکن 2014 کے بعد سے لے کر اب تک مسلمانوں پرکئی حملے ہوئے ہیں۔ ان کا نہ صرف جان و مال کا نقصان ہوا ہے بلکہ انہیں ذہنی اذیت بھی دی گئی ہے۔

ان کے بقول اگر موہن بھاگوت اپنے بیان میں سنجیدہ ہیں تو وہ اپنی حکومت سے کیوں نہیں کہتے کہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس حکومت کے دوران گائے کے گوشت کی فروخت یا استعمال پر مسلمانوں کے قتل اور متنازع شہریت بل پر احتجاج کے دوران مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

بھارت میں ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کی ہلاکت کے واقعات پر احتجاج بھی ہوتے رہے ہیں۔
بھارت میں ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کی ہلاکت کے واقعات پر احتجاج بھی ہوتے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ بھارت کی حکومت کہتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کی حوصلہ شکنی کرتی رہی ہے۔ حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے۔

ابھے کمار کے مطابق موہن بھاگوت ان سب باتوں پر خاموش رہتے ہیں اور کبھی کبھار اس قسم کے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ جس کا مقصد صرف اور صرف اپنی ساکھ کو بہتر بنانا ہے۔

مسلمان تنظیموں کا ردِعمل

تقریباً دو درجن مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے جنرل سیکریٹری مولانا عبد الحمید نعمانی کا کہنا ہے کہ موہن بھاگوت کے بیانات کا وہ خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ان پر عمل بھی ہونا چاہیے۔

ان کے بقول ہجوم کے تشدد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ ایسا بیان وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی دیا تھا۔ لیکن ان بیانات کے نتائج نہیں نکلتے۔ ان کے الفاظ میں ملک میں نفرت کی سیاست بدستور جاری ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی کے لیڈر کچھ بیان دیتے ہیں اور آر ایس ایس کے سربراہ کچھ کہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان بیانات کے ذریعے عوام کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مولانا نعمانی کے مطابق موہن بھاگوت نے ایک وقتی طور پر بیان دیا ہے۔ آر ایس ایس ایک نظریاتی تنظیم ہے۔ اس کے نزدیک سیاست کو ثانوی درجہ حاصل ہے۔ وہ سیاست سے پہلے مذہب کی بات کرتی ہے۔ان کے بقول وہ ملک میں ہندو مذہب کی بالادستی چاہتی ہے۔

ان کے مطابق بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنماؤں کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ اگر بیانات کے مطابق کارروائی نہیں ہوتی تو سوالات تو اٹھیں گے۔

خیال رہے کہ حکومت کے وزرا بار بار اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک تمام شہری برابر ہیں اور مذہب و فرقے کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔

بھارتی حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے عہد کی پابند ہے اور اسی لیے اس نے اقلیتی امور کی وزارت تشکیل دی ہے۔

اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی بھی یہ بات بار بار کہہ چکے ہیں کہ حکومت اقلیتوں کی ترقی چاہتی ہے اور اس کے لیے متعدد پروگراموں اور منصوبوں پر عمل کیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ حکومت مذہب کی بنیاد پر کسی بھی شہری کے ساتھ ناانصافی کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG