رسائی کے لنکس

سیاسی عدم استحکام، ڈالر پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح 188 روپے پر پہنچ گیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں جاری سیاسی بحران کی وجہ سے روپے کی قدر مسلسل کم ہو رہی ہے اور جمعرات کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی۔ پہلی بار پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی انٹربینک قدر 188 روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔

پاکستا ن اسٹیٹ بینک کے مطابق بدھ کو مارکیٹ بند ہونے کے بعد ایک ڈالر کی قیمت 186 روپے 13 پیسے تھی ۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے اور چار مارچ کے بعد سے انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت میں لگ بھگ 10 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب گزشتہ چند ہفتوں کے دوران عالمی سطح پر دیگر ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے ۔ اقتصادی ماہرین اور غیر ملکی کرنسی کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا تعلق پاکستان میں جاری سیاسی بحران اور معیشت کو درپیش مشکلات سے بھی ہے۔

اتوار کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریکِ عدم اعتماد پر متنازع رولنگ دی اور اس تحریک کو مسترد کر دیا تھا جس کی وجہ سے ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے منفی اثرات معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔

پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں تین روز قبل مندی کا رجحان دیکھا گیا جب اسٹاک مارکیٹ میں ایک ہی روز میں 1250 پوائنٹس کی کمی ہوئی۔

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ فاریکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے ملک میں جاری سیاسی بحران کو قرار دیا ہے۔

ملک بوستان کہتے ہیں کہ اس وقت ملک میں کوئی فعال حکومت نہیں ہے جب کہ دوسری جانب سیاسی بحران کے حل ہونے کے فور ی آثار نظر نہیں آ رہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب تک سیاسی بحران حل نہیں ہوتا ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہونے کا امکان نہیں ہے۔

سیاسی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے اس دعوے کی وجہ سے کہ ان کی حکومت کو ہٹانے کی مبینہ سازش میں امریکہ ملوث تھا، تاجر برداری میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اگرچہ پہلے ہی اس الزام کو مسترد کر چکا ہے لیکن پاکستان کی تاجر برادری کو تشویش ہے کہ اگر یہ بیانیہ جاری رہا تو اس کے بیرونی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور پاکستان کے لیے امریکہ کے ساتھ اچھے تجارتی اور سفارتی تعلقات برقرار رکھنا ضروری ہے۔

روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا تعلق سیاسی بحران کے علاوہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان بات چیت میں آنے والے وقفے سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔

آئی ایم ایف اپنے ایک بیان میں اگرچہ یہ کہہ چکا ہے کہ اس کا پاکستان کے ساتھ اپنا پروگرام معطل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ مالی معاملات جاری رکھے گا جب کہ نئی حکومت قائم ہونے کے بعد معاشی استحکام کے کام کا آغاز کرے گا۔

ملک بوستان کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کے بارے میں غیر یقینی صورتِ حال کی وجہ سے بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے۔

اقتصادی امور کے ماہر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر مسلسل کم ہونا نہایت تشویش کی بات ہے۔ ان کے بقول اگر روپے کی قدر میں کمی کا رجحا ن جاری رہا تو پاکستان کی درآمدات مہنگی ہو جائیں گی اور ملک میں مہنگائی کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

سیاسی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی بے یقینی کے ماحول میں بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ پاکستان کی درآمدات برآمدات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں جن کی ادائیگی ڈالر میں ہوتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی سے تیل درآمد کرنے میں بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی بحران ختم نہ ہونے تک ڈالر کے مقابلے میں روپے پر دباؤ برقرار رہے گا۔

شرح سود میں اضافہ

پاکستان کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔

'امریکہ کا پاکستان کی موجودہ صورتِ حال سے کوئی تعلق نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:30 0:00

اسٹیٹ بینک سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شرح سود میں اضافے کے بعد اب نئی شرح 12.25 فی صد ہو گئی ہے۔

اس کی وجہ غیر ملکی ادائیگیوں میں توازن برقرار رکھنا اور مہنگائی بتائی گئی ہے۔

پاکستان کے اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں 250 بیس پوائنٹس اضافہ کر کے شرح سود 12.25 فی صد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس فیصلے کا اعلان جمعرات کو جاری ہونے والی اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی میں کیا گیا ہے۔

اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب روس اور یوکرین تنازعے کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جب کہ دوسری جانب پاکستان کو غیر یقینی سیاسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ ان عوامل کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدرپر بھی اثر پڑا ہے اور کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کو بھی ایک غیر یقینی صورتِ حال کا سامنا ہے۔

رضا باقر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے ایک ہنگامی اجلاس میں ملک میں مہنگائی میں کمی کرنے اور مالی استحکام برقرار رکھنے کے لیے دیگر فیصلوں کے علاوہ پالیسی ریٹ کو 250 بیس پوائنٹس بڑھا کر شرح سود 12.25 فی صد کر دی ہے۔

رضا باقر نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک نے ملک میں پر تعیش اشیا کی درآمدات میں بھی کمی کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پاکستان کی درآمدات کا بل کم ہو۔

رضا باقر کے بقول ان اقدامات کی وجہ سے نہ صرف ملک میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بہتری اور مالی نظام میں استحکام آئے گا بلکہ ملک کی معیشت کو درپیش غیر یقینی صورتِ حال میں بھی بہتر ی آئے گی۔

XS
SM
MD
LG