رسائی کے لنکس

شام پر قرارداد روس اور چین نے ویٹو کردی


قرارداد ویٹو ہونے کے بعد اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر سمانتھا پاور خطاب کر رہی ہیں
قرارداد ویٹو ہونے کے بعد اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر سمانتھا پاور خطاب کر رہی ہیں

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 میں سے 13 ارکان نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا۔ لیکن روس اور چین نے ویٹو کا حق استعمال کرکے قرارداد کو غیر مؤثر کردیا۔

خانہ جنگی کا شکار شام میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات عالمی عدالت برائے جرائم سے کرانے کی سفارش پر مبنی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرار داد روس اور چین نے ویٹو کردی ہے۔

مجوزہ قرارداد کا مسودہ فرانس نے تیار کیا تھا جب کہ عالمی ادارے کے 65 رکن ممالک نے اس کی توثیق کی تھی۔ سو سے زائد بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں مجوزہ قرارداد کی حمایت کر رہے تھے۔

جمعرات کو سلامتی کونسل میں قرارداد پر رائے شماری کے دوران کونسل کے 15 میں سے 13 ارکان نے اس کی حمایت میں ووٹ دیا۔ لیکن روس اور چین نے قرارداد کے خلاف ویٹو کا حق استعمال کرکے اسے غیر مؤثر بنادیا۔

قرارداد میں شام کے بحران کے تمام فریقوں پر عائد کیے جانے والے قتلِ عام، جنسی زیادتیوں، تشدد اور دیگر سنگین جرائم کے الزامات کی تحقیقات دی ہیگ کی عالمی عدالت برائے جرائم سے کرانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

شام میں مارچ 2011ء سے جاری خانہ جنگی کے دوران یہ چوتھا موقع ہے جب روس اور چین نے بحران سے متعلق سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی کوئی قرارداد ویٹو کی ہے۔

قرارداد کی منظوری میں ناکامی کے بعد کونسل میں خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر سمانتھا پاور نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں مظالم کا سلسلہ بند کرانا سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے لیکن شام کے تنازع میں کونسل اپنا فرض نبھانے میں ناکام رہی ہے۔

امریکی سفیر نے کہا کہ شامی حکومت کے تمام تر مظالم کے باوجود روس کی جانب سے اس کی حمایت جاری رکھنے کے فیصلے کے سبب سلامتی کونسل شام کے عوام کو انصاف فراہم کرنے میں ایک بار پھر ناکام ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قرارداد کی ناکامی کے بعد شامی عوام مظالم کا سامنا کرتے رہیں گے اور ظلم ڈھانے والوں کو کوئی سزا نہیں ملے گی۔

سمانتھا پاور نے کہا کہ قرارداد ویٹو کرکے صرف صدر بشار الاسد کی حکومت کا تحفظ نہیں کیا گیا بلکہ شام میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے احتساب کا موقع بھی گنوادیا گیا ہے۔

قرارداد پر رائے شماری سے قبل سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے فرانس کے سفیر جیرارڈ ارود نے رکن ملکوں سے قرار داد کی حمایت کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ شام میں جاری مظالم بند کرانے کے لیےاپنا کردار ادا کریں۔

اقوامِ متحدہ میں روس کے سفیر وٹالے چرکِن نے قرارداد پیش کرنے کے پیچھے کارفرما فرانس کے عزائم کو مشکوک ٹہراتے ہوئے کہا کہ پیرس حکومت "بخوبی واقف تھی کہ قرارداد کا انجام کیا ہوگا"۔

قرارداد ویٹو کرنے کے بعد سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے روسی سفیر کا کہنا تھا کہ مجوزہ قرارداد کا مقصد مخصوص سیاسی مقاصد پر عمل درآمد کے لیے عالمی عدالت کو استعمال کرنا اور بالآخر شام میں بیرونی فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرنا تھا۔

اس سے قبل اقوامِ متحدہ میں شام کے سفیر نے رواں ہفتے عالمی ادارے میں تعینات مختلف ممالک کے سفیروں کو ارسال کیے جانے والے ایک خط میں مجوزہ قرارداد کی زبان کو "سیاسی" اور "جانبدارانہ" قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت نہ کرنے اپیل کی تھی۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اس سے قبل سوڈان کے علاقے دارفور میں ہونے والی گروہی جھڑپوں اور لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی کی حکومت کے آخری دور میں ہونے والی عوامی بغاوت کے دوران پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات بین الاقوامی عدالت سے کرانے کی منظوری دی چکی ہے۔

دی ہیگ میں قائم عدالت صرف انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم اور نسل کشی جیسے واقعات کی تحقیقات کی مجاز ہے۔ عدالت صرف انہی ممالک میں پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات کرسکتی ہے جو یا تو اس کے رکن ہوں یا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ان کے خلاف تحقیقات کی سفارش کرے۔

سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر شام کا معاملہ بین الاقوامی عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ شام عدالت کا رکن نہیں ہے۔
XS
SM
MD
LG