صدر بائیڈن کا 'اسٹیٹ آف دی یونین' خطاب، روسی ہم منصب کو انتباہ
افغانستان سے فرار ہو کر یوکرین پہنچنے والے تارکین وطن ایک بار پھر در بدر
افغانستان کے سینکڑوں باشندے جو اپنے ملک میں جنگ سے فرار ہوکر حالیہ برسوں میں یوکرین چلے گئے تھے، اب وہاں کی جنگ میں پھنس گئے ہیں اور بہت سے پناہ کی تلاش میں نکلنے کے لیے سر گرداں ہیں۔
رعنا علوت، ان کے شوہر اور بیٹے نے اوڈیسا چھوڑ دیا اور ملک سے فرار ہونے کے لیے ایک ٹرین میں سوار ہوگئے۔اس کے بعد ایک بس میں سفر اور پولینڈ کی سرحد پر لمبی قطاروں میں انتظار کے بعد، بالآخر یہ خاندان پیر کے روز پولینڈ پہنچ گیا۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا تین سالہ بیٹا، بم دھماکوں سے بہت خوفزدہ ہو گیا تھا۔
چھبیس سالہ رعنا نے چھ سال قبل یوکرین کے شہر اوڈیسا ہجرت کی تھی تاکہ اپنا مستقبل محفوظ اور بہتر بنا سکیں۔ وہ اوڈیسا میں قائم افغان مہاجرین کے ایک اسکول میں پڑھاتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ "یہ بہت برا ہوا۔ میں بڑے خواب لے کر یہاں آئی تھی اور خواہش تھی کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کروں گی، لیکن بدقسمتی نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ میں اپنے خاندان کے لیے خوفزدہ ہوں۔ اب جلد ازجلد ہمیں دوبارہ آباد ہو جانا چاہیے۔"
امریکہ کا روس کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنے کا اعلان
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن روس کے مقابلے کے لیے اپنی افواج یوکرین نہیں بھیجے گا تاہم روسی پروازوں کے لیے امریکی فضائی حدود بند کی جا رہی ہے۔
امریکی کانگریس سے اپنے پہلے 'اسٹیٹ آف دی یونین' خطاب کے دوران صدر بائیڈن نے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کو خبر دار کیا کہ انہیں یوکرین پر حملے کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی روسی پروازوں کے لیے فضائی حدود بند کرکے روس کو مزید الگ تھلگ کر دیں گے۔
امریکی قانون سازوں اور دیگر اہم شخصیات سمیت امریکہ میں یوکرین کی سفیر بھی اس خطاب کے دوران حاظرین میں موجود تھیں۔ کئی خواتین اراکین کانگریس نے یوکرین سے اظہار یکجہتی میں اس کے پرچم میں شامل نیلے اور پیلے یا سنہری رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔
'خارکیف پر بم حملوں کو کوئی معاف کرے گا، نہ ہی کوئی بھول پائے گا'
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر، خارکیف کے شہری علاقوں پر روسی افواج کی جانب سے منگل کو کیے گئے بم حملوں کی مذمت کرتے ہوئے صدر ولودی میر زیلنسکی نے کہا ہے کہ انہیں ''کوئی بھی معاف کرے گا،اور نہ ہی کوئی بھول پائے گا''۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق تقریباً اُسی وقت 40 میل پر پھیلا ہوا فوجی قافلہ، جس میں سینکڑوں روسی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں شامل تھیں، دارالحکومت کیف کی جانب پیش قدمی کرتا رہا، جس کے بارے میں مغربی ملکوں کا کہنا ہے کہ اس کا واحد مقصد یوکرین کی حکومت کا تختہ الٹنا اور کریملن کی وفادار حکومت قائم کرنا ہے۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن کی افواج نے یوکرین بھر کے دیگر قصبوں اور شہروں پر شدید حملے جاری رکھے، جن میں ملک کے جنوب میں واقع اوڈیسا اور ماریپول کی اہم بندرگاہیں بھی شامل ہیں۔