رسائی کے لنکس

روس اور نیٹو کے افغانستان میں تعلقات


روسی صدر دمتری میدویدف
روسی صدر دمتری میدویدف

روس افغانستان میں نیٹو کی مدد کر رہا ہے اور یورپ پر نیٹو کے میزائل کی دفاعی ڈھال کے بارے میں اس نے اپنا ذہن کھلا رکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نیٹو کے فوجی اتحاد کے بارے میں کریملن کے خیالات تبدیل ہو رہےہیں۔

امریکی صدر براک اوباما کے ساتھ دوستانہ ملاقاتوں کے بعد روس کے صدر دمتری مدویدیف سنیچر کے روز لزبن میں نیٹو اور روس کے سربراہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ دو برس پہلے جب روس نے جارجیا پر حملہ کیا تھا اس کے بعد یہ اس قسم کی اعلیٰ ترین سطح کی میٹنگ ہوگی۔ توقع ہے کہ لزبن میں روس کے صدر افغانستان میں امریکی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ کے لیے وسیع تر امداد کی پیشکش کریں گے۔ جہاں تک یورپ کے لیے میزائل کی دفاعی ڈھال کا تعلق ہے انھوں نے اپنا ذہن کھلا رکھنے کی پیشکش کی ہے۔

صدراوباما نے اس تبدیلی کو محسوس کیا ہے۔ گذشتہ اتوار کو جاپان میں روس کے صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد انھوں نے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہے کہ بہت سے معاملات میں ہمیں اتنا اچھا پارٹنرملا ہے۔

ماسکو میں ایئر فورس کمانڈر الیگزینڈر زیلینAlexander Zelin نے ایئر فورس کے غیر ملکی اتاشیوں کو بریف کرنے کے بعد کہا کہ ہم اپنے فضائی اور خلائی دفاع کے انتظامات کو ترقی دیتے رہیں گے۔ خدا نے چاہا تو ہم اس کام کو نیٹو کے ساتھ مِل کر انجام دیں گے۔

لیکن نومبر2008 ء میں صدر مدویدیف نے امریکہ کے میزائل کے دفاعی منصوبے کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ پولینڈ اور روس کی سرحد کے نزدیک میزائل اور راڈار کو جام کرنے والی مشینیں نصب کر دیں گے۔

اس کے بعد سے بہت کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ روس اقتصادی میدان میں پیچھے رہ گیا ہے اور چین کی معیشت نے زبردست ترقی کی ہے۔ روس کے سیاسی تجزیہ کارKonstantin von Eggert کہتے ہیں کہ چین اب روس کو جونیئر پارٹنر کی طرح سمجھتا ہے۔ وہ وسط ایشیا سے روس کا اثر و رسوخ ختم کررہا ہے اور ملٹری ٹیکنالوجی کی کوالٹی میں روس کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے۔

ماسکو کے تجزیہ کارMikhail Troitsky کہتے ہیں کہ اپنی اقتصادی ترقی بحال کرنے کے لیے روس کو یورپی سرمایہ اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ ’’جن ملکوں سے آپ کو سرمایہ اور ٹیکنالوجی حاصل کرنی ہے اگر ان کے ساتھ آپ مسلسل تصادم کی حالت میں رہیں تو اس طرح آپ غیر ملکی سرمایہ حاصل نہیں کر سکتے اور اپنی معیشت کو جدید نہیں بنا سکتے‘‘۔

روس کے رویے میں سب سے زیادہ نمایاں تبدیلی افغانستان کے حوالے سے آئی ہے۔ صدربُش کے زمانے میں کریملن نے افغانستان میں نیٹو کی فوجی کارروائیوں کے بارے میں شکایت کی تھی۔ لیکن جب سے اوباما انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے سال گرمیوں میں بڑی جنگی کارروائیاں ختم کرنا شروع کردے گی روسی لیڈروں نے یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ نیٹو کے جانے کے بعد افغانستان میں حالات کیا ہوں گے۔

تجزیہ کار Von Eggert کہتے ہیں کہ اگر نیٹو کی 120,000 فوج میں کمی سے کابل کی حکومت غیر مستحکم ہوئی تو اسلامی بنیاد پرستی شمال میں وسط ایشیا کے ان پانچ ملکوں میں پھیل سکتی ہے جو کبھی سوویت ریپبلکس تھے۔ ’’وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ روس کی سرحدیں بالکل کھلی ہیں۔ تاجکستان، کرغزستان اور قزاقستان جیسے ملکوں میں جو بھی اسلامی انتہاپسندی درآمد ہوئِی، وہ سیدھی ماسکو تک پہنچ جائے گی ۔ روس میں فیصلہ سازوں کے لیئے یہ خیال بڑا پریشان کن ہے‘‘۔

ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں نیٹو کے ساتھ روس کے تعاون کی نئی پالیسی پسند نہیں۔ روسی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر Gennady Zyuganov نے انتباہ کیا ہے کہ کریملن، بچی کھچی روسی فوج اوربحریہ کو امریکہ اور نیٹو کی فوجوں میں شامل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روس رضا کارانہ طور پر دنیا کی بڑی طاقتوں کی صف سے الگ ہو رہا ہے‘‘۔

کچھ یورپی سوچتے ہیں کہ کیا روس واقعی نیٹو کے ساتھ تعاون کرے گا۔ تاریخی لحاظ سے روس کے بدلتے ہوئے موڈ کے بارے میں روس کے قریب ترین ہمسایوں نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ صحیح اطلاعات فراہم کی ہیں۔

اب پولینڈ کے صدر Bronislw Kormporowski نے اس پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ یہ تعاون واقعی صحیح ہو سکتا ہے۔ ایک اخباری مضمون میں انھوں نے مشرقی یورپ کے ملکوں کے سیکورٹی کے مفادات کو نظر انداز کر کے روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات بڑھانے کے نتائج سے خبردار کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG