رسائی کے لنکس

چین کے لیے روسی تیل کی فراہمی میں اضافہ


روس کا آئیل ٹینکر
روس کا آئیل ٹینکر

امریکہ روس کی جانب سے چینی بندرگاہوں تک خام تیل کی فراہمی میں حالیہ اضافے کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ شمالی بحری راستے یعنی ناردرن سی روٹ کے ذریعے ہونے والی خام تیل کی یہ فراہمی اس بات کی علامت ہے کہ آرکٹک علاقے میں روس اور چین کے درمیان تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روس کو یوکرین پر حملے کی وجہ سے مغرب کی مفلوج کر دینے والی پابندیوں کا سامنا ہے۔

امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کی سٹریٹجک کمیونیکیشنز کے رابطہ کار جان کربی کا کہنا ہے کہ’’ یہاں کسی تنازعہ آرائی کا امکان نہیں ۔ ہم ممکنہ طور پر بغور جائزہ لیتے رہیں گے۔‘‘ جان کربی وائٹ ہاؤس کی نیوز بریفنگ کے دوران وائس آف امریکہ کے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔

نارڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار ہائی نارتھ لاجسٹکس سے ملنے والے ڈیٹا کے مطابق شمالی بحری راستے کے ذریعے اس سال اب تک روسی جہازوں میں خام تیل کی بھاری کھیپ چین پہنچائی گئی ۔ یہ شمالی بحری راستہ بحیرہ باررینٹس کے روسی ساحل سے آبنائے برنگ تک جاتا ہے ۔

گزشتہ برسوں میں آرکٹک کے ذریعے چین کو تیل فراہم نہیں کیا گیا لیکن 2022 کے اواخر میں تجرباتی طور پر ایک مرتبہ ایسا کیا گیا۔آرکٹک انسٹی ٹیوٹ کے بانی مالٹ ہمپرٹ کہتے ہیں کہ مغرب کی جانب سے روس پر عائد پابندیایوں سے روس کے خام تیل کی مانگ میں کمی آئی ہے اور چین اسے خریدنے پر آمادہ ہے اس لیے روس نے بیجنگ کے لیے آرکٹک راستہ کھول دیا ہے۔

شمالی بحری راستہ یا این سی آر
شمالی بحری راستہ یا این سی آر

ہمپرٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ’’ یورپ کے لیے مخصوص وسائل کا رخ اب ایشیا خصوصا چین کی جانب ہو گیا ہے۔ ‘‘یہ ماسکو کے لیے ایک عملی انتخاب ہے ۔

شمالی بحری راستہ نہر سویز کے روایتی راستے کے مقابلے میں 30 فیصد تیز ہے اور ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں اسے استعمال کرنا بھی آسان ہو گیا ہے کیونکہ اب راستے میں زیادہ برف نہیں ہوتی۔

اس علاقے میں آمدورفت میں ہونے والا اضافہ ماحولیات کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ خاص طور پر جب ماسکو نے یہ اعلان کیا کہ وہ ایسے ٹینکر استعمال کرے گا جو برفانی علاقے کے لیے نہیں ہیں ۔ان میں لنگر والے جہاز بھی شامل ہیں کیونکہ کم برف کی وجہ سے وہاں چلنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوتی۔

ولسن سینٹر کے پولر انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر ربیکا پن کس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اگر روس کے شمالی آرکٹک علاقے سے فراہم کیے جانے والے تیل کا کوئی اخراج ہوتا ہے تو آلودہ پا نی امریکہ کی جانب بڑھے گا۔ تیل بین الاقوامی سرحدوں کی حدود سے با ہر بہہ نکلے گا اور یہ انتہائی خطر ناک صورت حال ہے۔‘‘

روس سے چین کے لیے تیل کی فراہمی میں 2022 کے مقابلے میں 23 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس سال روزانہ چار لاکھ بیرل تیل فراہم کیا گیا ہے۔

جان کربی وائیٹ ہاؤس کی بریفنگ میں
جان کربی وائیٹ ہاؤس کی بریفنگ میں

جان کربی نے بیجنگ پر زور دیا ہے کہ وہ روس کے لیے مقرر کی جانے والی 60 ڈالر فی بیرل کی قیمت کی پابندی کرے۔روس کے یوکرین پر حملے کے بعد اس قیمت کا تعین مغربی حلیفوں کی جانب سے کیا گیا تھا۔تاہم تجارتی اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ روس کے خام تیل کے ایک بیرل کے لیے 80 ڈالر ادا کیے جاتے ہیں ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے امریکہ کی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے گزشتہ ہفتے یہ بات تسلیم کی کہ ممکن ہے تیل کی قیمت کی حد مقرر کرنے کے اثرات اب ختم ہو رہے ہیں ۔

چین روس تعلقات

روس کے یوکرین پر حملے کے بعد انرجی کی مغربی کمپیناں شیل اور برٹش پیٹرولیم روس سے نکل چکی ہیں۔ اس لیے ماسکو کو اپنے انرجی پروجیکٹس کے لیے درکار رقم کے حصول کے لیے چین پر زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ان میں یمل ایل این جی ٹرمینل اور انفرا سٹرکچر کے دوسرے منصوبے شامل ہیں جنہیں آرکٹک علاقے میں مکمل ہو نا ہے۔

جہاں تک چین کا تعلق ہے اس کی رسائی آرکٹک ساحل تک نہیں ہے۔ لیکن 2018 میں اس نے خود کو آرکٹک سے نزدیک‘ روس کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی طاقت قرار دیا۔اس کے نتیجے میں آرکٹک میں اس کے لیے اپنا رول بڑھانے کا راستہ ہموار ہو گا ۔ بحری راستوں اور قدرتی وسائل تک رسائی بڑھ جائے گی اور یوں جغرافیائی سیاسی اثرو رسوخ بڑھانے میں مدد ملے گی۔

ولسن سینٹر کے پولر انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر ربیکا پن کس نے کہا کہ ’’ چین کے ان عزائم کی راہ میں اب تک ماسکو ہی حائل رہا ہے۔ روس کے پاس بحر آرکٹک کا 53 فیصد علاقہ ہے اور یہی بات قطبی ( پولر)خطے میں روس کے غالب اثرورسوخ کا تحفظ کرتی ہے۔

یوکرین پر حملے کے نتیجے میں روس کو اقتصادی تنہائی کا سامنا ہے۔ تاہم ہو سکتا ہے کہ اب روس کی مزاحمت ختم ہو نے والی ہو۔ ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا روس اس حد تک نا امیدی کا شکار ہے کہ وہ چین کے مطالبات اور شرائط کو پورا کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘

پوٹن اور شی
پوٹن اور شی

امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے جان کربی نے ماسکو اور بیجنگ کے درمیان بڑھتے ہوئے سٹریٹجک اتحاد کے بارے میں خدشات کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آرکٹک میں روس چین تعاون زیادہ تر ’’اقتصادی اور سائنسی نوعیت ‘‘ کا ہے۔

جان کربی کہتے ہیں کہ انتظامیہ کامقصد یہ نہیں کہ روس کی طاقت کو اس کے اپنے علاقے میں کم کیا جائے ۔ ’’ ہم آرکٹک کو ایک آزاد اور خوشحال علاقے کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ آرکٹک علاقے کی سرحدوں سے ملحق تمام ممالک اس سے مستفید ہو سکیں ۔ ‘‘

آرکٹک علاقے کے ساتھ آٹھ ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں ۔ ان میں امریکہ،روس، کینیڈا، (گرین لینڈ کے ذریعے) ڈنمارک آئس لینڈ، ناروے، سویڈن،اور فن لینڈ شامل ہیں۔ ان سب کا تعلق آرکٹک کونسل سے ہے ۔ یہ کونسل تعاون کا ایک فورم ہے جسے آب و ہوا کی تبدیلی ، بحری راستوں اور مقامی افراد کے حقوق کو لاحق مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔

آرکٹک کونسل کے سینئر عہدے داروں میں سے ایک مورٹن ہوگلنڈ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ کونسل نے روس کے یوکرین پر حملے کے بعد ماسکو کے ساتھ اپنے رابطے کو معطل کر رکھا ہے اور اس گروپ نے اگست میں اتفاق کیا تھا کہ وہ عملی گروپ دوبارہ شروع کرنے کا خواہاں ہے جو تعاون کو بحال کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔

پیٹسی وداکو سوارا۔ وی او اے۔

فورم

XS
SM
MD
LG