رسائی کے لنکس

روس اور امریکہ کے درمیان گرفتار جاسوسوں کے تبادلے


مبیئنہ روسی جاسوس عدالت میں
مبیئنہ روسی جاسوس عدالت میں

دس روسی باشندوں کے ایک گروپ کو، جن پر جاسوسی کا شبہ ہے، ایک امریکی عدالت میں پیش کرنے کے انتظامات کرلیے گئے ہیں اور ایسے آثار دکھائی دے رہے ہیں کہ جلد ہی ان کا تبادلہ روسی جیلوں میں قید ان امریکیوں سے کیا جائے گا جن پر روسیوں کو شبہ ہے کہ وہ امریکہ کے لیے جاسوسی کرتے تھے۔

پروگرام کے تحت مشتبہ روسی جاسوس نیویارک سٹی کی ایک وفاقی عدالت میں،جہاں پر ان کے خلاف الزامات عائد کیے ہیں، اپیل دائر کریں گے ۔

ایک مشتبہ روسی خاتون اینا چاپمن کے وکیل رابرٹ بوم کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے جلد نمٹائے جانے کا امکان موجود ہے۔انہوں نے یہ امکان ظاہر کیا کہ ان کے مؤکل کو ایک معاہدے کے تحت اعتراف جرم کے بدلے ملک بدر کیا جاسکتا ہے۔

اس سے قبل امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں قید ایک روسی سائنس دان کے خاندان اور وکیل نے کہا تھا کہ ان کا تبادلہ امریکہ میں قید روسیوں سے ہوسکتا ہے۔

روسی سائنس دان آئیگور سوتیاگن کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں۔ کچھ روسی خبررساں اداروں کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ یاروس دونوں میں سے کسی بھی ملک کے عہدے داروں نے ان خبروں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

بدھ کے روز امریکی پراسیکیوٹرز ، جنہوں نے اس سے قبل مدعہ علہان پر خفیہ ایجنٹ کے طورپر کام کرنے کا الزام لگایا تھا، اب ان میں سے نو پر منی لانڈرنگ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

جب کہ گیارہواں شخص ، قبرص میں اپنی گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا ہونے کے بعد سے لاپتا ہے۔

ان تمام افراد پر الزام ہے کہ وہ امریکہ میں خاموشی کے ساتھ رہائش پذیر تھے اور کام کررہے تھے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ امریکہ کے جوہری ہتھیاروں اور سیاست کےبارے میں روسی انٹیلی جنس کے لیے معلومات اکھٹی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

سوتیاگن کو، جو ایک روسی جوہری ماہر ہیں، 1999ء میں ایک برطانوی کمپنی کو ، جس کے بارے میں روس کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرتی تھی، خفیہ معلومات فراہم کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں 2004ء میں 15 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

سوتیاگن کے والد کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا جاسوس نہیں ہے اور اس نے کبھی بھی اعتراف جرم نہیں کیا۔

XS
SM
MD
LG