رسائی کے لنکس

معاشرے آزادیوں سے چلتے ہیں، پابندیوں سے نہیں: سلیم عاصمی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

(یہ انٹرویو وائس آف امریکہ نے 2019 میں 'اسٹوڈنٹس یونین سیریز' کے سلسلے میں کیا تھا۔ سلیم عاصمی کے انتقال پر اسے دوبارہ شائع کیا گیا۔)

واشنگٹن ​: پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طلبہ تنظیموں کے رہنما رہ چکے ہیں۔ سابق فوجی صدر ضیا الحق نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی تھی اور مبصرین اس اقدام کو سیاست کی نرسری ختم کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیا الحق کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔

اس سلسلے میں ڈان کے ایڈیٹر اور ڈی ایس ایف کے رہنما رہنے والے سلیم عاصمی سے خصوصی گفتگو پیش کی جارہی ہے۔

سوال: کیا آپ ایک مختصر سے انٹرویو کے لیے کچھ وقت دے سکیں گے؟

سلیم عاصمی: میری عمر پچاسی سال ہو چکی ہے۔ یادداشت متاثر ہوئی ہے۔ آپ مجھ سے گفتگو کر سکتے ہیں، مجھے اعتراض نہیں ہے لیکن بہت سی باتیں مجھے یاد نہیں رہیں۔ کون سی چیز کب بنی، کون سا واقعہ کس سنہ میں ہوا، شاید ٹھیک سے نہ بتا سکوں۔ آپ بعد میں کہیں گے کہ یہ کیا بے ربط گفتگو کی۔

سوال: جتنا یاد ہے، اتنا شیئر کر لیں۔ آپ 1950ء کی دہائی میں کالج اور یونیورسٹی گئے۔ اس وقت کون سی طلبہ تنظیمیں تھیں اور آپ کا رجحان کس جانب تھا؟

سلیم عاصمی: میں نے کراچی کے ایس ایم آرٹس کالج سے بی اے کیا تھا۔ اس کے بعد ایم اے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ایک سال پڑھا لیکن تعلیم مکمل نہیں کر سکا کیونکہ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ اس وقت ڈی ایس ایف تھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ تھی۔ یہ دو بڑی تنظیمیں تھیں اور چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بھی تھیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کی، سندھی طلبہ کی۔ کالج کی اپنی یونین ہوتی تھی جس کا ہر سال الیکشن ہوتا تھا۔ میں نے ایک سال الیکشن لڑا لیکن ہار گیا تھا۔

سوال: ہارنے کی وجہ کیا تھی؟

سلیم عاصمی: میں نے ڈی ایس ایف کی طرف سے الیکشن لڑا۔ ڈی ایس ایف کا کوئی امیدوار کبھی ایس ایم کالج میں نہیں جیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایس ایم کالج سندھ کے جاگیرداروں کا کالج تھا۔ اس میں وڈیروں کے بچے پڑھتے تھے۔ وہ جمعیت کے ساتھ مل جاتے تھے اور ہم اقلیت میں رہ جاتے تھے۔ میرے الیکشن ہارنے کی وجہ یہ تھی کہ میرے مقابل بھی ایک وڈیرے کا بیٹا تھا۔

سوال: آپ کب تک ڈی ایس ایف کا حصہ رہے؟

سلیم عاصمی: میں اس وقت تک ڈی ایس ایف کا حصہ رہا جب تک اس پر پابندی نہیں لگ گئی۔ ڈی ایس ایف ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلبہ نے بنائی تھی۔ ڈاؤ میڈیکل کالج، اسلامیہ کالج، ایس ایم آرٹس کالج، ڈی جے سائنس کالج یہ سب قریب قریب واقع ہیں۔ زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ ان کے طلبہ ایک دوسرے سے ملتے رہتے تھے۔ باتیں کرتے، شکایتیں کرتے، ایک دوسرے کو مسائل بتاتے۔ اس زمانے میں ڈاؤ میڈیکل کے چند لڑکوں نے مشن روڈ کے اودھ ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر تنظیم بنائی اور اس کا نام ڈی ایس ایف رکھا۔ بعد میں دوسرے کالجوں کے لڑکے اس میں شامل ہوئے۔ ہم بھی ہو گئے۔ پھر چارٹر آف ڈیمانڈ بنایا۔ اس میں چار نکات تھے۔ ایک مطالبہ یہ تھا کہ طلبہ کو ماہانہ وظیفہ ملنا چاہیے۔ کیونکہ بہت سے طلبہ کے لیے تعلیم کا خرچہ پورا کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اس طرح کے اور کئی مطالبات تھے۔ آخری مطالبہ تھا، ملازمت کا تحفظ۔

سوال: ڈی ایس ایف خالصتاً طلبہ نے بنائی۔ کیا اس کا کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رہا؟

سلیم عاصمی: یہی تو میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ چوتھا مطالبہ ملازمت کا تحفظ تھا۔ ملازمت کا تحفظ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ریاست نہ کہے۔ ڈی ایس ایف کے لڑکوں کی اکثریت پاکستان کمیونسٹ پارٹی میں شامل تھی۔ بعد میں کمیونسٹ پارٹی اور ڈی ایس ایف، دونوں پر پابندی لگ گئی۔ میں مارکسسٹ تھا اور ہوں لیکن اس کے بعد کسی پارٹی سے میرا تعلق نہیں رہا۔

سوال: ڈی ایس ایف کے لڑکے بعد میں این ایس ایف میں شامل ہوئے؟

سلیم عاصمی: این ایس ایف بعد میں بنی اور طویل عرصے تک قائم رہی۔ اس کے لڑکوں نے بہت کام کیا۔ بہت کمال کیا۔ این ایس ایف نے حکومت کو بہت پریشان کیا۔ ڈی ایس ایف نے تنگ نہیں کیا۔ ہم تو مار کھاتے رہے۔

سوال: آپ کے دور میں نمایاں طالب علم رہنما کون تھے؟ ڈی ایس ایف کے اور جمعیت کے؟

سلیم عاصمی: میرے دور میں ڈی ایس ایف کے جو لڑکے تھے، انھوں نے بعد میں مختلف شعبوں میں بہت کارنامے انجام دیے۔ ڈاکٹر ہارون احمد، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، اور بہت سے تھے۔ میں خود ڈان کا ایڈیٹر بنا۔ جمعیت والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں رہا اور مجھے کسی کا نام یاد نہیں۔

سوال: کیا ڈی ایس ایف کے لڑکوں کو اور آپ کو کبھی گرفتار کیا گیا؟

سلیم عاصمی: کئی بار۔ مجھے دور طالب علمی میں بھی گرفتار کیا گیا اور بعد میں بطور صحافی بھی۔ طالب علمی کے زمانے میں گرفتار کرکے ایک ہفتہ جیل میں رکھا گیا۔ ضیا الحق کے دور میں نو مہینے کی قید ہوئی۔

سوال: اور کیا کالجوں یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں کی لڑائی ہوتی تھی؟ کبھی پٹائی ہوئی؟

سلیم عاصمی: ہماری کون پٹائی کرتا؟ ہم پٹائی کرتے تھے۔ کراچی یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں سرکاری سرپرستی ملنے کے بعد جمعیت کے لڑکے شیر ہوئے ہیں ورنہ جب تک ڈی ایس ایف رہی، این ایس رہی، یہ کچھ نہیں کر پائے۔

سوال: آپ صحافت کی طرف کیوں آئے؟ سیاست میں کیوں نہیں گئے؟

سلیم عاصمی: ارے بھئی کچھ کھانا پینا بھی ہوتا ہے۔ ذمے داریاں بھی ہوتی ہیں۔ سیاست کرنا آسان نہیں۔ ویسے بھی مجھے صحافی بننے کا شوق تھا۔ بن گیا۔

سوال: لیکن سیاست کا شوق ختم نہیں ہوا۔ صحافیوں کی یونینز میں بھی آپ الیکشن لڑتے رہے؟

سلیم عاصمی: جی ہاں، صحافیوں کی یونین کے الیکشن میں بھی حصہ لیا۔ پی ایف یو جے کی ذیلی یونینز ہیں۔ پی یو جے، کے یو جے، آر آئی یو جے۔ میں راولپنڈی میں تھا تو کئی سال آر آئی یو جے کا سیکٹری رہا۔ پی ایف یو جے کی ایگزیکٹو کونسل کا بھی رکن بنا۔

سوال: آخر میں سب سے اہم بات۔ طلبہ یونینز پر پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ نقصان ہوا تو کس قدر؟

سلیم عاصمی: کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے، آزادی ہونی چاہے۔ جینے کی آزادی، لکھنے پڑھنے کی آزادی، گانا گانے کی آزادی۔ خواتین کو آزادی ہونی چاہیے۔ اخبارات کو بھی آزادی ہونی چاہیے۔ اس سے ثقافت ترقی کرتی ہے۔ آزادیاں نہ رہیں تو معاشرے خراب ہوجاتے ہیں۔ جو ہوا ہے یہاں پر۔ اب نہ کوئی تنظیم ہے، نہ معاشرہ ہے، نہ ریاست اور عدالت کسی قابل ہے۔ معاشرے آزادیوں سے چلتے ہیں، پابندیوں سے نہیں۔

سوال: کیا آپ آج کے دور کی صحافت سے مطمئن ہیں؟ کیا آج کی صحافت آزاد ہے؟

سلیم عاصمی: آزادی صحافت یہ ہے کہ جو کچھ آپ کے اردگرد ہو رہا ہے، وہ عوام کو بتائیں۔ اگر نہ بتا سکیں تو اس کا مطلب ہے کہ آزادی نہیں ہے۔ دوسری آزادیاں اگر نہ ہوں تو یہ آزادی بھی نہیں رہتی۔

XS
SM
MD
LG